اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پر متضاد بیانات، پی ٹی آئی کی حکمت عملی؟
اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پر متضاد بیانات، پی ٹی آئی کی حکمت عملی؟
اتوار 28 اپریل 2024 13:10
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
شہریار آفریدی نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتی ہے (سکرین شاٹ)
پاکستان تحریک انصاف موجودہ حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے سے تو انکار کر رہی ہے تاہم دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما فوج کے ساتھ جلد مذاکرات شروع کرنے کے بیانات دے رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر شہریار آفریدی ایک مقامی نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں یہ کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی آئی کے فوج کے ساتھ جلد مذاکرات ہوں گے۔
پاکستان تحریک انصاف نے شہریار آفریدی کے اس بیان سے اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے اِسے اُن کی ذاتی رائے یا معلومات قرار دیا ہے تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے معاملے پر پی ٹی آئی میں کوئی تقسیم ہے یا یہ سیاسی حکمت عملی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر شہریار خان آفریدی نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کے دوران یہ دعویٰ کیا تھا کہ اُن کے بہت جلد فوج سے مذاکرات شروع ہوں گے۔
شہریار خان آفریدی نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ حکومت کے پاس ہمارے ساتھ مذاکرات کا کوئی اختیار نہیں۔ یہ مسترد شدہ لوگ ہیں ہم سے کیا بات کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی صرف آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان کے مستقبل کے لیے فوج سے مذاکرات چاہتے ہیں، فوج سے مذاکرات ہوں گے اور بہت جلد ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کی شروع دن سے مذاکرات کی خواہش تھی لیکن اس کے باوجود دوسری طرف سے جواب نہیں آیا۔
اس بیان کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان رؤف حسن نے شہریار آفریدی کے بیان کو اُن کی ذاتی رائے اور معلومات قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’شہریار خان آفریدی کا بیان پارٹی پالیسی نہیں، اسٹیبلشمنٹ سے صرف آئینی کردار سے متعلق بات ہو گی۔‘
ان کے مطابق ’ہم سیاسی جماعتوں سے بات چیت کے مخالف نہیں ہیں۔ عمران خان کی واضح ہدایت ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم سے بات نہیں ہو گی کیونکہ انہوں نے تحریک انصاف کا مینڈیٹ چرایا ہے۔‘
’پی ٹی آئی میں تقسیم نہیں، یہ حکمت عملی ہے‘
سینیئر تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے اُردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کو لے کر پاکستان تحریک انصاف میں کوئی تقسیم ہے لیکن حقیقت سے ذرا مختلف معلوم ہوتی ہے۔‘
رسول بخش رئیس کے مطابق ’سیاسی جماعتیں ہمیشہ کسی ایسے معاملے پر واضح پالیسی کے ساتھ نہیں چلتیں۔ پی ٹی آئی بھی اسی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ پارٹی کے اندر اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے معاملے پر کوئی تقسیم نہیں ہے۔ یہ اُن کی سیاسی حکمت عملی ہے۔ تاکہ اسٹیبلشمنٹ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ آخر یہ چاہتے کیا ہیں۔‘
رسول بخش رئیس کے خیال میں یہ بات تو واضح ہے کہ پاکستان تحریک انصاف فوج سے ہی مذاکرات چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی مقتدر حلقوں کو کہ باور کروانا چاہتی ہے کہ ہم عوامی نمائندہ جماعت ہیں اور عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان لڑائی میں کسی کی جیت نہیں ہو گی۔
رسول بخش رئیس کے خیال میں پاکستان تحریک انصاف تصادم کی نہیں بلکہ مفاہمت کی سیاست چاہتی ہے مگر یہ مفاہمت وہ نواز شریف یا آصف علی زرداری کے ساتھ نہیں، فوج کے ساتھ کرنا چاہتی ہے۔
سینیئر تجزیہ کار ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ عمران خان شروع دن سے ہی فوج کے ساتھ مذاکرات کے حامی ہیں تاہم پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت اس بات کا کھلے عام اظہار نہیں کرتی۔
اُردو نیوز سے گفتگو میں ضیغم خان نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہی فوج کے ساتھ مذاکرات کے بیانات دیتے آئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے پاس ان کے ساتھ مذاکرات کا اختیار نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی میں اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے متعلق مختلف بیانات سننے کو ملتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نے ایک مرتبہ کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا پیغام آیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے ایسا کوئی پیغام آنے کی تردید کی۔
ضیغم خان کے مطابق ’پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے کسی ایک موقف پر نہیں کھڑی ہوتیں کیونہ وقت آنے پر اُنہیں اسٹیبلشمنٹ کے قریب یا اُن سے دوری بھی اختیار کرنا پڑ سکتی ہے۔‘
’اس وقت پی ٹی آئی بھی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پر پچ کے دونوں اطراف کھیل رہی ہے۔ وہ مذاکرات کرنا تو چاہتی ہے مگر اس کا سر عام اظہار بھی نہیں کر سکتی۔‘
ضیغم خان کا کہنا تھا کہ سینیٹر عرفان صدیقی کی جانب سے جب پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دی گئی تو تب بھی پی ٹی آئی رہنما شبلی فراز نے مذاکرات کے ایجنڈے پر سوال کیا تھا کہ آیا مذاکرات کس کے کہنے پر کیے جائیں گے۔
’الغرض پاکستان تحریک انصاف کو یہ معلوم ہے کہ اُن پر عائد مقدمات کا خاتمہ، انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر تحقیقات اور عمران خان کی رہائی جیسے معاملات پر موجودہ حکومت کے پاس اختیارات نہیں۔ اسی لیے وہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی بات کرتی ہے۔‘