Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی غیرقانونی تارکین کا اٹلی میں داخلہ روکنے کا متوقع معاہدہ، کوئی فرق پڑے گا؟

وزیر داخلہ محسن نقوی نے اٹلی کے ساتھ معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے  متعلقہ حکام کو احکامات دے دیے ہیں (فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور اٹلی کی سفیر میریلینا آرمیلن کے درمیان غیرقانونی طور پر اٹلی جانے والے شہریوں کو روکنے پر بات ہوئی ہے۔
جمعے کو پاکستان کی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق اس ملاقات میں ’غیرقانونی طور پر اٹلی جانے والے پاکستانیوں کا داخلہ روکنے کے لیے معاہدے پر اتفاق ہوا ہے۔‘
وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ ’انسانی سمگلنگ روکنے کے لیے باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔ پاکستان اور اٹلی کے درمیان انسانی سمگلنگ روکنے کے  معاہدے کو جلد حتمی شکل دی جائے گی۔ وزیر داخلہ نے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے  متعلقہ حکام کو احکامات دے دیے ہیں۔‘
بہتر زندگی اور معاش کے لیے پاکستان کے شہریوں کے مختلف غیرقانونی راستوں کا انتخاب کرنے کی شکایات گزشتہ کئی برس سے رپورٹ ہو رہی ہیں۔
گزشتہ برس یونان کے ساحل کے قریب غیرقانونی تارکین وطن کی کشتی الٹ جانے کے نتیجے میں 281 پاکستانی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حادثے میں صرف 12 افراد زندہ بچ سکے تھے۔
اس کے بعد حکومت نے تارکین کو غیرقانونی طور پر ملک سے لے جانے والے ایجنٹس کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا، کئی ایک کو گرفتار بھی کیا گیا لیکن یہ مسئلہ تاحال حل نہیں ہو سکا۔
غیرقانونی پاکستانی تارکین کی ایک بڑی تعداد یورپ میں داخلے کے لیے اپنا پہلا پڑاؤ اٹلی، جرمنی یا سپین جیسے ممالک میں ڈالتی ہے لیکن وہاں پہنچنے تک انہیں اپنی جان خطرے میں ڈالنا پڑتی ہے۔
دوسری جانب حکومت کی جانب سے انسانی سمگلنگ کے خلاف کارروائیوں کی خبریں بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔

وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ’غیرقانونی طور پر اٹلی جانے والوں کو نہ صرف جیل جانا پڑے گا بلکہ رقم بھی ضائع ہو گی‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

اطالوی سفیر سے ملاقات کے بعد آج بھی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ ’پاکستان بھر میں انسانی سمگلنگ کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن جاری ہے۔ غیرقانونی طور پر اٹلی جانے والوں کو نہ صرف جیل جانا پڑے گا بلکہ رقم بھی ضائع ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان سے اٹلی ہنرمند افرادی قوت قانونی طریقے سے بھیجی جائے گی۔‘
پاکستان کے مختلف ممالک کے ساتھ انسانی سمگلنگ اور یورپی ممالک کے غیرقانونی سفر کو روکنے کے لیے معاہدے ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان معاہدوں سے غیرقانونی طور پر جانے والوں کو روکا جا سکتا ہے یا نہیں۔‘
تارکین کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟
پاکستان تارکین وطن اور غیر قانونی سفر کرنے والوں سے جڑے امور پر نگاہ رکھنے والے صحافی نادر خان نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر کہا کہ ’ایسے معاہدے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ ہر حکومت ایسے اعلانات کرتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آپ غیرقانونی تارکین کو کیسے روک سکتے ہیں؟ آپ کے پاس ایسا کیا میکنزم ہے؟‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی شخص ایئرپورٹ سے ٹکٹ لے کر دبئی، باکُو، ملائیشیا، انڈونیشیا وزٹ کے لیے جاتا ہے اور پھر وہاں سے وہ آگے کسی ملک میں نکل جاتا ہے تو آپ اسے کیسے روک سکتے ہیں۔ یہ ممالک وہ میجر پوائنٹس ہیں جہاں سے لوگ یورپ کی طرف نکل جاتے ہیں۔‘
نادر خان کے مطابق ’ہاں، ایک بات ممکن ہے کہ مذکورہ ممالک خود ان افراد کے ویزے مسترد کر دیں۔ اقوام متحدہ بھی انسانی سمگلنگ روکنے کے لیے کام کر رہا ہے اور پاکستان میں بھی قانون موجود ہے۔‘
اٹلی غیرقانونی تارکین کی ترجیحی منزل کیوں؟
اٹلی غیرقانونی تارکین وطن کے لیے ترجیحی مقام کیوں ہے؟ اس سوال کے جواب میں نادر خان کا کہنا تھا کہ ’اٹلی سے غیرقانونی طور پر دیگر یورپی ممالک میں داخل ہونے کے کئی ذرائع ہوتے ہیں۔ وہاں انہیں سستی رہائش بھی مل جاتی ہے۔‘
’غیرقانونی تارکین وطن عام طور پر جرمنی، اٹلی اور سپین کو اپنا بیس کیمپ بناتے ہیں کیونکہ انہیں پتا ہوتا ہے کہ اگر ایک ملک کی پولیس نے پکڑا تو وہ اِنہی میں سے کسی دوسرے ملک کی جانب انہیں دھکیل دے گی۔‘
Pakistan's economic meltdown spurs more people to risk lives to reach  Europe - The Japan Times
تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد اپنی جان پر کھیل کا ڈنکی کا طریقہ اختیار کرتی ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

ڈنکی کی نسبت ’کم خطرناک طریقہ‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہ طریقہ ڈنکی کی نسبت کم خطرناک ہے۔ ڈنکی میں تارکین خود کو انسانی سمگلرز کے حوالے کر دیتے ہیں۔ وہ سمندری یا غیرروایتی زمینی سفر اختیار کرتے ہیں جہاں ان کی جان کو خطرہ ہوتا ہے۔ اس سفر میں کئی افراد ہلاک بھی ہو جاتے ہیں۔‘
’یہ جو دوسرا طریقہ ہے اس میں آپ باقاعدہ ہوائی سفر کر کے جاتے ہیں۔ اپنی منزل پر پہنچ کر زیادہ سے زیادہ آپ کو یہ نقصان ہوتا ہے ایجنٹ سے معاہدے کے مطابق آپ کی نوکری نہیں ہوتی یا معاوضہ کم ہوتا ہے۔ لیکن تارکین بہتر مستقبل کی امید پر اتنا خطرہ مول لینے سے نہیں کتراتے۔‘

شیئر: