Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر میں احتجاج: حکومت اور ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات ناکام

پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں جاری احتجاجی تحریک کے حوالے سے ریاستی حکومت اور احتجاج کی قیادت کرنے والی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔
راولاکوٹ سرکٹ ہاؤس میں چار گھنٹے سے زیادہ جاری رہنے والے حکومتی مذاکرات کاروں اور اور جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوئے۔
مذاکرات کے سیشن کے بعد جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سینیئر رہنما عمر نذیر نے کہا کہ حکومت مطالبات پر سنجیدہ نہیں ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت ان کے ساتھ فراڈ کر رہی ہے۔
 چار گھنٹوں سے زائد ٹائم جاری رہنے والے مذاکرات میں چیف سیکرٹری آزاد کشمیر سمیت 15 کے قریب کمیٹی ممبران بھی شریکِ تھے۔
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ایک رکن، جو مذکرات میں شریک تھے، نے اردو نیوز کو بتایا کہ مذاکرات کے دوران بجلی کے ٹیرف میں کمی کے ایشو پر ڈیڈلاک ہوا۔ ’حکومتی کمیٹی نے کہا کہ بجلی کے ٹیرف میں کمی کا اختیار ان کے پاس نہیں اور اس میں کمی نہیں ہوسکتی۔‘
ان کے مطابق حکومتی کمیٹی نے آٹے پر ایک ہزار فی من سبسڈی دینے کی پیشکش کی لیکن ایکشن کمیٹی نے مزید سبسڈی کا مطالبہ کیا۔  
اشرافیہ کے مراعات ختم کرنے کے مطالبے پر حکومتی کمیٹی کا موقف تھا کہ ریاسی وزرا کے مراعات وفاقی حکومت کے وزرا سے کم ہے اس لیے اس میں کمی نہیں ہوسکتی۔ 
مذاکرات کی ناکامی کے بعد مظفرآباد حکومت نے پیر کے روز ضلع بھر میں تمام تعلیمی ادارے بند رکھنے کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا ہے۔ 
نوٹیفکیشن کے مطابق مظفرآباد میں پیر کے روز ضلعی دفاتر بھی بند رکھے جائیں گے۔
قبل ازیں مرکزی انجمن تاجران مظفرآباد اور کور ممبر جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی مظفرآباد ڈویژن حفیظ ہمدانی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات پر عمل درآمد کے نوٹیفکیشن پر راولاکوٹ میں مذاکرات جاری ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہمارا شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام جاری ہے، اگر نوٹیفکیشن جاری نہ ہوا تو لانگ مارچ آج رات ہی راولاکوٹ سے چل پڑے گا
دوسری جانب عوامی ایکشن کمیٹی کے لانگ مارچ میں شامل قافلے راولاکوٹ شہر پہنچ گئے ہیں۔
تاہم کشمیر کے بیش تر بڑے شہروں میں موبائل انٹرنیٹ سروس ابھی تک بحال نہیں ہو سکی۔
دریں اثنا صدر آصف علی زرداری سے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے ممبران کے وفد نے ملاقات کی ہے۔
ایوارن صدر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق صدر مملکت نے کہا ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز تحمل کا مظاہرہ کریں اور جموں و کشمیر کے مسائل بات چیت اور باہمی مشاورت سے حل کریں۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں، ریاستی اداروں اور جموں و کشمیر کے عوام کو ذمہ داری سے کام لینا چاہیے تاکہ دشمن عناصر حالات کا فائدہ نہ اٹھا سکیں۔
بیان کے مطابق وفد نے صدر مملکت کو جموں و کشمیر میں ہونے والے حالیہ افسوسناک واقعات سے آگاہ کیا۔
آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ’جموں و کشمیر کے عوام کے مطالبات کو قانون کے مطابق پورا کیا جانا چاہیے۔ موجودہ صورتحال کا حل نکالنے کے لیے جموں و کشمیر کے عوام کی شکایات پر وزیراعظم پاکستان سے بات کروں گا۔‘
’صحت، تعلیم، سیاحت اور انفراسٹرکچر کی ترقی سمیت جموں و کشمیر کی سماجی و اقتصادی ترقی کو ترجیح دی جانی چاہیے۔‘
آصف علی زرداری نے جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا اور پولیس اہلکار کی ہلاکت پر تعزیت بھی کی۔

بیان کے مطابق وفد نے صدر مملکت کو جموں و کشمیر میں ہونے والے حالیہ افسوسناک واقعات سے آگاہ کیا۔ (فوٹو: ایوان صدر)

دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف کی خصوصی ہدایت پر پاکستان مسلم لیگ ن جموں و کشمیر کے وفد کی وفاقی وزیر امورِ کشمیر و گلگت بلتستان و سیفران انجینیئر امیر مقام کی زیرصدارت کشمیر کونسل اسلام آباد میں ہنگامی اجلاس منعقد ہوا ہے۔
پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق وفاقی وزیر امیر مقام سے پاکستان مسلم لیگ جموں کشمیر کی سینیئر قیادت نے ملاقات کی۔ اجلاس میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی تازہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا-
ملاقات میں صدر پاکستان مسلم لیگ ن جموں و کشمیر شاہ غلام قادر، سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان، سیکریٹری جنرل چودھری طارق فاروق، نائب صدور چوہدری محمد عزیز، ڈاکٹر نجیب نقی، مرکزی ڈپٹی جنرل سیکریٹری عبد الخالق وصی اور سیکریٹری اطلاعات بیرسٹر افتخار گیلانی نے شرکت کی۔
اجلاس میں متفقہ طور اتفاق کیا گیا کہ مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں بھر پور کردار کریں گے اور ایکشن کمیٹی والوں سے بات چیت کی جائے گی۔
وفاقی وزیر انجینیئر امیرمقام کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کو مسئلے کے پرامن حل کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کے مسائل کو اپنا سمجھتے ہیں اور ہم مثبت کردار ادا کریں گے۔
اجلاس میں کشمیر حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔

قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے جموں و کشمیر کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام جماعتوں پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے مطالبات کے حل کے لیے پرامن طریقہ کار کا سہارا لیں۔
اتوار کو ایک ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ ’بدقسمتی سے افراتفری اور اختلاف کے حالات میں ہمیشہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سیاسی پوائنٹ سکور کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔ بحث مباحثہ اور پرامن احتجاج جمہوریت کا حسن ہیں، لیکن قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے لیے کوئی برداشت نہیں ہونی چاہیے۔ میں نے جموں و کشمیر کے وزیراعظم سے بات کی ہے اور وہاں مسلم لیگ (ن) کے تمام عہدیداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں سے بات کریں۔
میں تمام جماعتوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ اپنے مطالبات کے حل کے لیے پرامن طریقہ کار کا سہارا لیں۔ معاملے کو بگاڑنے والوں کی کوششوں کے باوجود امید ہے کہ معاملہ جلد حل ہو جائے گا۔‘
جوائنٹ ایکشن کمیٹی احتجاج کیوں کر رہی ہے؟
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی گذشتہ ایک برس سے کشمیر میں بجلی کے بھاری بلز، آٹے کی سبسڈی اور دیگر مطالبات کے لیے احتجاج کر رہی ہے۔
گذشتہ ایک برس کے دوران احتجاجی مظاہروں، پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتالوں کے بعد جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت اور حکومتی کمیٹی کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے لیکن معاملہ کسی حتمی حل تک نہ پہنچ سکا۔

جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی گذشتہ ایک برس سے کشمیر میں بجلی کے بھاری بلز، آٹے کی سبسڈی اور دیگر مطالبات کے لیے احتجاج کر رہی ہے۔ (فوٹو: کاشف خان فیس بک)

19 دسمبر کو حکومت اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات کے بعد ایک تحریر سامنے آئی تھی جس میں حکومت نے کہا تھا کہ ’بجلی کی فی یونٹ لاگت کے علاوہ تمام معاملات یکسو ہو چکے ہیں۔
اس تحریر میں حکومتی مصالحتی کمیٹی کے رکن وزیر کرنل (ریٹائرڈ) وقار نور نے بجلی سے جڑے معاملات دو ہفتوں میں حل کرنے کی یقین دہائی کرائی تھی تاہم اس پر بھی عمل نہ ہو سکا۔
پھر دوبارہ مذاکرات کے نتیجے میں رواں برس چار فروری کو کشمیر کی حکومت کے سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ نے عوامی ایکشن کمیٹی کے بعض مطالبات پر عمل درآمد کے لیے ایک نوٹیفیکشن جاری کیا تھا۔
اسی روز ایک اور سات نکاتی معاہدہ بھی منظر عام پر آیا تھا جس پر حکومتی مصالحتی کمیٹی میں شامل وزرا اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کے دستخط تھے۔
اس کے کچھ عرصہ بعد بعد عوامی ایکشن کمیٹی نے الزام عائد کیا کہ حکومت معاہدے میں طے شدہ امور پر عمل نہیں کر رہی ہے۔ اس کے بعد 13 فروری کو عوامی ایکشن کمیٹی نے اعلان کیا کہ 30 اپریل کے بعد کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اور مطالبات پورے نہ ہونے پر 11 مئی کو دارالحکومت مظفرآباد کی جانب لانگ مارچ کیا جائے گا۔

عوامی ایکشن کمیٹی کے لانگ مارچ میں شامل قافلے راولاکوٹ شہر پہنچ رہے ہیں۔ (فوٹو: کاشف خان فیس بک)

جمعرات 9 مئی کو ڈڈیال میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے عہدے داروں کی گرفتاریوں اور پولیس کے ساتھ مظاہرین کے تصادم کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی نے لانگ مارچ کی کال واپس لے کر جمعرات کی رات 12 بجے سے پورے کشمیر میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا جس کے بعد پورے کشمیر میں گذشتہ تین دن سے پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری ہے۔

شیئر: