لاہور ہائی کورٹ کا 200 سماعتوں والا مقدمہ اور مریم نواز کا اعتراض
لاہور ہائی کورٹ کا 200 سماعتوں والا مقدمہ اور مریم نواز کا اعتراض
بدھ 15 مئی 2024 5:46
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
مریم نواز نے کہا کہ ایک جج صاحب کے ریمارکس سُن کرہنسی آتی ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ہائی کورٹ میں ایک ایسا مقدمہ بھی چل رہا ہے جس کو حالیہ تاریخ کا طویل ترین کیس کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس طویل ترین مقدمے کی سماعت کے دوران ہی گزشتہ ہفتے پنجاب میں حکومت کی جانب سے الیکٹرک بائیکس دینے کے عمل کو مزید بہتر کرنے کی ہدایت کی گئی تو مقامی میڈیا میں یہ خبر نشر ہوئی کی ہائیکورٹ نے حکومت کو ای بائیکس طلبہ کو دینے سے مشروط طور پر روک دیا ہے۔
انہی خبروں پر وزیراعلٰی مریم نواز نے اپنی ایک تقریر میں نام لیے بغیر کہا کہ ’ایک جج صاحب نے ایک ایسے مقدمے میں عجیب ریمارکس دیے ہیں کہ بچے بائیکس پر لڑکیوں کے کالجز کے باہر جائیں گے۔ ایسے ریمارکس سن کر ہنسی آئی ہے۔ مقدمہ کوئی اور تھا اور ریمارکس کچھ اور دیے گئے۔‘
یہیں سے اس طویل مقدمے اور پنجاب حکومت کے ای بائیکس پراجیکٹ کا تال میل شروع ہوتا ہے۔
یہ مقدمہ سال 2018 کے ستمبر میں ایک رٹ پیٹیشن کی صورت میں داخل کیا گیا۔ جس میں صوبہ پنجاب میں صاف پانی کی فراہمی کو بنیادی انسانی حق قرار دیتے ہوئے تمام شہریوں تک اس کی رسائی کی یقینی بنانے کی بات کی گئی تھی۔ ہارون نامی شہری کی اس درخواست کے ساتھ کئی اور درخواستیں بھی انہی دنوں میں دائر کی گئیں جن کو یکجا کر دیا گیا۔
حیرت کی بات ہے کہ 2018 میں دائر ہونے والے ایک مقدمے کا موجودہ مریم نواز کی حکومت کے ای بائیکس پراجیکٹ سے کیا تعلق ہے؟ اس بات کا جواب جاننے سے پہلے بات وہیں سے شروع کرتے ہیں کہ جب پانی سے متعلق اس درخواست پر سماعت شروع ہوئی تھی تو اس کیس کی سماعت کرنے والے اس وقت کے جج علی اکبر قریشی نے اس مقدمے کو مفاد عامہ کے مقدمے میں تبدیل کر دیا۔ بعد ازاں وہ ریٹائرڈ ہو گئے تو یہ کیس ایک نئے جج جسٹس شاہد کریم کی عدالت میں لگ گیا۔ جنہوں نے پانی کے معاملات پر ایک طاقتور کمیشن تشکیل دے دیا جس کی سربراہی ریٹائرڈ جج علی اکبر قریشی کے سپرد کر دی گئی۔
جب پنجاب میں سموگ کے تدارک کے لیے دراخواستیں دائر ہوئیں تو ان کو بھی اس مرکزی مقدمے کے ساتھ نتھی کر دیا گیا اور واٹر کمیشن کو ماحولیاتی کمیشن میں تبدیل کر دیا گیا یوں اس مقدمے کا دائرہ کار وسیع تر ہو گیا۔
یہ واحد مقدمہ ہے جس کی تقریبا ہر ہفتے سماعت ہوتی ہے۔ اور اب تک 200 سے زائد سماعتیں ہو چکی ہیں۔ اسی طرح اس مقدمے میں ایک حکم کے ذریعے سے بننے والا کمیشن اب تک پانی اور ماحولیات سے متعلق دو سو سے زائد رپورٹس بھی عدالت میں جمع کروا چکا ہے۔ مقدمے کا رخ ماحولیات کی طرف مڑنے کے بعد موٹر وے پر ای ٹیگ کا معاملہ ہو یا ٹریفک چالان کی رقم میں اضافہ، کم عمر ڈرائیوروں پر لائسنس نہ رکھنے پر ایف آئی آرز ہوں یا فیکٹریوں کی بندش۔ لاہور ہائی کورٹ کے اس طرح کے سارے حکم اسی طویل ترین مقدمے اور کمیشن کی جمع کروائی گئی رپورٹس کے مرہون منت ہی تھے۔
اب آتے ہیں کہ ای بائیکس منصوبے پر عدالت نے کیا کہا؟ عدالتی حکم پر بنائے گئے ماحولیاتی کمیشن کے رکن سید کمال علی حیدر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مفاد عامہ کے اس کیس کو لڑتے ہم بوڑھے ہو گئے ہیں۔ اور اس کمیشن نے جو پہلے واٹر کمیشن تھا اور اب ماحولیاتی کمیشن ہے اس نے لاکھوں لوگوں تک پانی پہنچا ہے۔ اور ماحول میں بہتری ہوئی ہے۔ جہاں تک اس خاص سماعت کا تعلق ہے تو ایک عدالت میں ایک درخواست آئی تھی ای بائیکس سے متعلق تو وہ بھی اسی عدالت میں مارک ہوئی کیونکہ اسی طرح کے سارے کیس اسی عدالت میں آتے ہیں۔ لیکن اس کو بہت غلط طریقے سے رپورٹ کیا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عدالت نے بالکل بھی کوئی حکم امتناعی جاری نہیں کیا نہ روکا ہے۔ بات یہ تھی کہ پہلے یہ 20 ہزار الیکٹرک بائیکس دے رہے تھے اب صرف ایک ہزار دے رہے ہیں اور باقی 19 ہزار پیٹرول والی ہیں۔ اسی طرح جن کے پاس لائسنس نہیں ان کو بھی دے رہے ہیں تو عدالت نے کچھ آبزرویشن دی تھیں کہ اس عمل کو مزید بہتر کریں۔ باقی کچھ باتیں مذاق میں ہوئی تھیں ان کو میڈیا بے بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔‘