صدر اردوغان اور اپوزیشن جماعت سی ایچ پی کے سربراہ اوزگور اوزل کی ملاقات دارالحکومت انقرہ میں ہوئی جو ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی۔
بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں اوزگور اوزل کی جماعت نے استنبول اور انقرہ سمیت اہم شہروں کا کنٹرول حاصل کرتے ہوئے اناطولیہ کے صوبوں میں ووٹ حاصل کیے جو پہلے اردوغان کا گڑھ سمجھے جاتے تھے۔
مبصرین نے مارچ کے انتخاباتی نتائج کو اردوغان کی جماعت اے کے پی کے لیے بدترین شکست قرار دیا ہے جس کے بعد سے سیاست کے میدان میں صدر نے ‘نرمی‘ دکھائی ہے۔
بہت سے لوگوں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی جو اس وقت 75 فیصد سے اوپر ہے، اور گزشتہ سال کے دوران لیرا کرنسی کی گرتی ہوئی قدر میں کمی کو اے کے پی کی شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
صدر اردوغان کو طویل عرصے سے ایک سویلین آئین کا مطالبہ کرتے ہوئے سنا ہے کہ موجودہ آئین ’1980 کی بغاوت کی پیداوار ہے۔‘ تاہم ایک نئے چارٹر پر ریفرنڈم کروانے کے لیے انہیں اپوزیشن کے کم از کم 37 قانون سازوں کی حمایت درکار ہے۔
سی ایچ پی کے اوزگور اوزل کا اگرچہ نئے چارٹر کے مطالبے پر سخت مؤقف نہیں ہے تاہم انہوں نے حکومت پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ موجودہ دستاویز کی پابندی کرنے میں ناکام رہی ہے اور نیا چارٹر لانا ان کے خیال میں بےکار ہوگا۔
دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں کرد اکثریتی جنوب مشرقی علاقے میں ایک منتخب میئر کو عہدے سے ہٹائے جانے کے معاملے پر بھی بات چیت متوقع ہے۔
مہمت صدیق اکیس کرد نواز ڈی ای ایم پارٹی کے جنوب مشرقی صوبے ہکاری کے میئر کے طور پر منتخب ہوئے تھے تاہم حکام نے پارٹی پر کرد عسکریت پسندوں کی کالعدم جماعت پی کے کے سے روابط کا الزام عائد کیا ہے۔
اوزگور اوزل نے منتخب میئر کی برطرفی پر احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’عوام کی خواہش کا احترام‘ کرنا چاہیے۔