Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فرینکلی سپیکنگ: جو بائیڈن کا منصوبہ غزہ کی خونریزی روکنے کے لیے اب بھی مفید ہے؟

سموئیل زبوگر نے کہا کہ غزہ میں تباہی دیکھنے کے بعد ہم واضح طور پر سمجھتے ہیں ہمیں دو برابر کے فریق درکار ہے (فوٹو: عرب نیوز)
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سلووینیا کے نمائندے سموئیل زبوگر نے کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس دونوں امریکی صدر جو بائیڈن کے امن منصوبے سے مطمئن نہیں ہیں جس کا مطلب ہے کہ ’یہ ڈیل اچھی ہے۔‘
سموئیل زبوگر نے یہ بات عرب نیوز کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں گفتگو کے دوران کہی ہے۔
رواں ماہ 10 جون کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 2735 منظور کی تھی جو غزہ جنگ کے خاتمے کی تجویز پر مبنی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس نے ترامیم کے بغیر اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا تھا جبکہ اسرائیل نے بھی اسے مسترد کر دیا تھا۔
سموئیل زبوگر نے کہا کہ ’میں ابھی تک بائیڈن پلان کو چھوڑنے کی بات نہیں کر رہا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ابھی تک قطر، مصر اور امریکہ کی ثالثی میں مذاکرات جاری ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ اس منصوبے کے لیے امریکہ کو اپنی اتھارٹی کو بروئے کار لانا ہو گا تاکہ ہم اس پر عمل درآمد کی امید کر سکیں۔ ہم امن کو ایک موقع دینا چاہتے ہیں۔‘
اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ حماس کی عسکری اور حکومتی صلاحتیوں کو تباہ کیے بغیر جنگ بندی پر تیار نہیں لیں تاہم سموئیل زبوگر کا کہنا ہے کہ فریقین کو سمجھوتے کی جانب بڑھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں مسائل دونوں طرف ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ امن منصوبے کو مسترد کرنے کا معاملہ کسی ایک جانب سے ہے۔ دونوں طرف کے لوگ اس منصوبے سے مطمئن نہیں جس کا مطلب ہے کہ یہ ایک اچھی ڈیل ہے۔‘
’میں بہت پرامید ہوں کہ یہ ڈیل عمل درآمد کی صورت میں غزہ میں سویلیںنز کی ہلاکتوں اور ان کی مشکلات کو ختم کر سکتی ہے۔‘
کیا سکیورٹی کونسل غزہ میں اسرائیلی کارروائیاں روکنے کے لیے اس پر دباؤ ڈال سکتی ہے؟ فرینکلی سپیکنگ کی میزبان کیٹی جینسن کے اس سوال کے جواب میں سموئیل زبوگر نے کہا کہ صرف ایک متفقہ موقف ہی مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔
’میرے خیال میں سکیورٹی کونسل سب سے مؤثر پلیٹ فارم ہے لیکن یہ سب اس وقت ہی مؤثر ہو سکتا جب تمام ارکان متفق ہوں۔ اگر ہمارے پاس (اس امن منصوبے کے حق میں) 15 ووٹ ہوں تو یہ اسرائیل اور حماس کے لیے ٹھوس پیغام ہو سکتا ہے۔‘
’لیکن اس سے پہلے کی ایک قرارداد میں روس پیچھے ہٹ گیا تھا جبکہ کچھ عرصہ قبل ایک قرارداد سے امریکہ نے اتفاق نہیں کیا تھا۔ اس سے ایک پیغام یہی ملتا ہے کہ چال چلنے کا موقع کہیں نہ کہیں اب بھی موجود ہے۔‘
یورپی یونین جیسے فورمز رفح پر حملوں کو رکوانے میں کردار ادا کر سکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں سموئیل زبوگر نے کہا کہ ’یہ بھی اتفاق میں ناکامی کی ایک مثال ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’غزہ میں محصور افراد کی مدد کرنے کے لیے سازگار حالات لڑائی رکنے کی صورت میں ہی پیدا ہو سکتے ہیں۔ وہاں انسانی امداد کا عمل جنگ بندی سے کم کسی بھی چیز سے شروع نہیں ہو سکتا۔‘
’جب اوپر راکٹ برس رہے ہوں تو امدادی سامان تقسیم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ منظور شدہ راستوں پر جانے والے امدادی سامان کے ٹرکوں کو بھی کئی مرتبہ نشانہ بنایا گیا ہے۔‘
’ایسے حالات میں امدادی کارکن کیسے فلسطینی علاقوں میں جانے کے لیے تیار ہوں گے جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے 200 ساتھیوں کو امدادی سرگرمیوں کے دوران ہلاک کر دیا گیا ہے۔ اسی لیے اس مسئلے کا واحد حل جنگ بندی ہی ہے۔‘

سموئیل زبوگر نے کہا ’ہماری جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنا درحقیقت فلسطینی عوام کے لیے پیغام ہے‘ (فوٹو: عرب نیوز)

سموئیل زبوگر نے کہا کہ غزہ میں تباہی دیکھنے کے بعد ہم واضح طور پر سمجھتے ہیں ہمیں دو برابر کے فریق درکار ہیں۔
’ہمیں دو برابر کے خودمختار فریق چاہییں، اسرائیل اور فلسطین تاکہ وہ اپنے مستقبل کے تعلقات کے بارے معاملات طے کر سکیں۔ ہم ایسا فلسطین چاہتے ہیں جو اسرائیل ہی سطح کا ہو، کوئی بھی فریق کمزور نہ ہو۔‘
سموئیل زبوگر نے کہا کہ سلووینیا کا فسطین کو تسلیم کرنا وہاں کے عوام کے لیے ایک پیغام تھا کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔ اور ساتھ ساتھ یہ اسرائیل کے لیے بھی پیغام تھا کہ وہ غلط راستے پر ہے۔
’ہم پرامید ہیں کہ فلسطین سلووینیا میں اپنا سفارت خانہ قائم کرے گا۔ ہمارا نمائندہ پہلے سے رملہ میں موجود ہے۔ ہم نے اپنی پارلیمنٹ کے فیصلے کو باقاعدہ طور پر نافذ کیا ہے۔‘
’ہم سلووینیا میں کئی برسوں سے فسلطین کو تسلیم کرنے کے بارے میں بات چیت کر رہے تھے۔ ہم ایک سیاسی عمل کے منتظر تھے لیکن جب سے غزہ میں حالات خراب ہوئے تو ہم نے سوچا کہ یہی پیغام دینے کا صحیح وقت ہے۔‘
ہماری جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنا درحقیقت فلسطینی عوام کے لیے پیغام ہے۔ یہ اسرائیل یا حماس کے لیے پیغام نہیں کیونکہ ان میں سے کسی کو بھی اپنے شہریوں کی پروا نہیں ہے۔ یہ دونوں فریق فلسطینی شہریوں اور اسرائیلی یرغمالیوں کو ایک دوسرے پر دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘
سموئیل زبوگر نے کہا کہ ’ہم اسرائیل کے دوست تھے اور رہیں گے لیکن ان کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، وہ غلط ہے۔ میرے خیال میں وہ غلط جانب کھڑے ہیں۔‘
’اسرائیل کا مطلب صرف وہاں کی موجودہ حکومت نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ خطے میں امن کے لیے جو کچھ ہم نے کیا ہے، اسرائیل کے عوام اسے سراہیں گے۔‘

شیئر: