سعودی سیاح جن کے پاس 105 ممالک کی خوش گوار یادیں ہیں
کئی ناواقف علاقوں نے حیرت میں اضافہ کیا اور بچپن کی خوشگوار یادیں لوٹ آئیں۔ فوٹو انسٹاگرام
سعودی سیاح ناصر السدھان بچپن میں نیوزی لینڈ، انڈیا اور دیگر ممالک کی دستاویزی فلمیں دیکھنے میں گھنٹوں گزارتے جہاں انہیں مسحور کن مناظر اور ثقافتیں بہت لبھاتیں۔
عرب نیوز کے ساتھ ایک نشست میں السدھان نے بتایا کہ بالغ ہوتے ہی میں نے ان ممالک کا دورہ کرکے اپنے بچپن کے تصورات کو حقیقت میں بدلنے میں کامیابی حاصل کی۔
السدھان نے بتایا کہ بہت سے ایسے ناواقف علاقے میری حیرت میں اضافے کا سبب بنے اور وہاں جانا میرے بچپن کی خوش گوار یادوں کو واپس لایا۔
ریاض میں پیدا ہونے والے 35 سالہ نوجوان ناصر السدھان نے حیرت انگیز طور پر 105 ممالک کا سفر کیا ہے اور ہر سفر ان کے لیے منفرد اور انتہائی یادگار ہے۔
کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر ڈگری اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے وہ 22 سال کی عمر میں کینیڈا اور پھر پی ایچ ڈی کے لیے آسٹریلیا چلے گئے۔
ناصر السدھان نے بتایا کہ وہ 2019 کے آخر میں واپس سعودی عرب آ گئے اور ریاض کی کنگ سعود یونیورسٹی میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے پروفیسر تعینات ہو گئے۔
السدھان نے بتایا کہ وہ انسٹاگرام @flowmad_ کے ذریعے اپنی سیاحتی یادیں اور شوق کے داستانیں اور تجربات شیئر کرتے ہیں۔
سعودی سیاح نے 2014 میں اپنی بیک پیکنگ مہم جوئی اور سیاحتی سفر کا آغاز کیا تھا اس سے قبل بچپن میں وہ کسی ائیرپورٹ پر بیگ اٹھائے ایسے مسافر کو دیکھ کر متجسس ہوتے تھے۔
انہوں نے بتایا جب انہوں نے گوگل میپس پر مختلف ممالک کو براؤز کیا تو اپنے اندر دنیا دیکھنے کی خواہش محسوس کی۔
مجھے اس کا موقع اعلیٰ تعلیم کے لیے کینیڈا روانہ ہونے کے بعد ملا۔ وہ اپنے روم میٹ فرانسس کے ساتھ گزارے بہترین لمحات کو بڑے شوق سے یاد کرتے ہیں۔
سعودی سیاح نے بتایا کہ کسی بھی سفر کے لیے تیار رہتا کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں ہوتی اور شاذ و نادر ہی اپنی پرواز اور رہائش کا پہلے سے منصوبہ بناتا۔
میں اکثر اسی رات فلائٹ بک کرتا جس رات مجھے سفر کرنا ہوتا تاکہ میں اپنی منزل پر پہنچ سکوں اور وہاں رہائش تلاش کر سکوں لیکن بعض اوقات مجھے رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ملتی تھی۔
دو سب سے بڑی رکاوٹیں جن پر مجھے قابو پانا پڑا کوئی منصوبہ بندی نہ کرنا اور کچھ بھی پیشگی بکنگ نہ کرنا اور جو بعد میں بہت قیمتی ثابت ہوئیں۔
سری لنکا میں ایک بار وہ ساحل سمندر پر سو گئے کیونکہ انہیں کوئی رہائش نہیں مل سکی وہاں حیرت انگیز طور پر ایک یوکرین گروپ سے ملاقات ہوئی انہوں نے مجھے سونے کے لیے جگہ کی پیشکش کی، ہم دوست بن گئے اور ہم نے اگلے دو ہفتے ایک ساتھ گزارے۔
السدھان نے بتایا کہ پولینڈ میں دوران سفر ٹرین میں میرا فون کام کرنا چھوڑ گیا، وہاں میں نے برازیل کے دو لڑکوں کو بیگ کے ساتھ دیکھا اور کسی ہاسٹل کی دریافت کے سلسلے میں ہماری دوستی ہوئی اور تین روز تک ایک ہی ہاسٹل میں اکٹھے رہے۔
جاپان کے سفر کے دوران میرے پاس مقامی کرنسی نہیں تھی وہاں ایک لڑکی نے ادائیگی میں مدد کی جب میں بس کا کرایہ ادا نہیں کر سکتا تھا۔
ہم دونوں دوست بن گئے اور اس نے مجھے جاپان کے مختلف مقامات کی سیر کرائی۔
سعودی نوجوان ناصر السدھان نے سیاحت کی خوشگوار یادیں سمیٹتے ہوئے بتایا کہ میں گزشتہ دس برس سے دنیا کا سفر کر رہا ہوں اور مجھے کبھی بھی ایسی مشکل پیش نہیں آئی جس کے نتیجے میں کوئی منفی یا ناخشگوار تجربہ ہوا ہو۔