Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ: شجاعیہ میں چوتھے روز بھی لڑائی جاری، 80 ہزار فلسطینی بے گھر

سنیچر کو اسرائیلی ٹینک مختلف علاقوں میں داخل ہوئے تھے۔ (فوٹو: روئٹرز)
اسرائیل کی جانب سے شمالی علاقے میں حماس کے کمانڈ اور اس کے ڈھانچے کو تباہ کرنے کے اعلان کے چند ماہ بعد غزہ شہر کے ضلع شجاعیہ میں چوتھے روز بھی شدید لڑائی جاری رہی اور بمباری کی گئی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شجاعیہ سے ہزاروں فلسطینی شہری دیگر علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے بات چیت کے دوران بہت کم پیشرفت ہوئی ہے۔
حماس نے سنیچر کو کہا تھا کہ امریکی ثالثوں کی جانب سے پیش کردہ نظرثانی شدہ منصوبے میں ’کچھ بھی نیا‘ نہیں۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ زمینی اور فضائی افواج نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران عسکریت پسندوں کے زیر استعمال کمپاؤنڈز پر چھاپے مارے اور ’متعدد دہشت گردوں کو ہلاک‘ کیا۔
اسرائیلی فوج کے مطابق وسطی غزہ اور جنوبی رفح کے علاقے میں جھڑپیں ہوئی ہیں۔ ایک ہفتہ قبل وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ سات اکتوبر سے جاری جنگ کا ’شدید مرحلہ‘ ختم ہونے کے قریب ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے ادارے اوچا کے مطابق جمعرات کو نئی ​​لڑائی شروع ہونے کے بعد 60 سے 80 ہزار افراد بے گھر ہو گئے ہیں اور فوج نے انخلا کے احکامات جاری کیے تھے۔
شجاعیہ میں موجود 50 برس کی خاتون سہام الشوا نے کہا کہ ’ہماری زندگی جہنم بن گئی ہے۔‘
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’لوگ پھنس گئے ہیں کیونکہ حملے ہر جگہ ہو رہے ہیں اور اس صورتحال میں اپنے علاقے سے نکلنا مشکل ہو گیا ہے۔‘
وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیلی افواج رفح، شجاعیہ اور غزہ میں ہر جگہ کارروائیاں کر رہی ہیں۔
نیتن یاہو کے دفتر کے ایک بیان کے مطابق انہوں نے اپنی کابینہ کو بتایا کہ ’ہر روز درجنوں دہشت گردوں کو ختم کیا جا رہا ہے۔‘
جنگ کا آغاز حماس کے سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حملے سے ہوا جس کے نتیجے میں 1195 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
عسکریت پسندوں نے 251 افراد کو بھی یرغمال بنایا تھا۔ 116 غزہ میں اب بھی موجود ہیں اور اسرائیلی فوج کے مطابق ان میں سے 42 ہلاک ہو چکے ہیں۔
حماس کے زیر انتظام غزہ میں وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کی جوابی کارروائی میں کم از کم 37 ہزار 877 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔

شیئر: