Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پیپلز پارٹی نے سولر پینلز پر ٹیکس نہیں لگنے دیا ورنہ کسی بابو کا ارادہ تھا‘

بلاول بھٹوزرداری کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہو گی کہ بلوچستان کے لیے مختص فنڈز ریلیز کروا کر صوبے کے عوام پر خرچ ہوں۔ (فائل فوٹو: وزیراعلٰی بلوچستان)
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ میں غریبوں پر جارحانہ قسم کے ٹیکسز لگے ہیں، غریب طبقے پر ٹیکسز نہیں لگنے چاہییں، پیپلز پارٹی کی مخالفت کی وجہ سے شمسی توانائی پر ٹیکس نہیں لگا۔
صوبہ بلوچستان کے دو روزہ دورے کے اختتام پر وزیراعلٰی سیکریٹریٹ کوئٹہ میں وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز احمد بگٹی، صوبائی وزرا، اراکین اسمبلی اور پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بجٹ میں وفاقی پی ایس ڈی پی پر پیپلز پارٹی نے شدید اعتراضات کیے۔ اگر مشاورت ہوتی تو بجٹ اس سے بہتر ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ ن لیگ سے بروقت مذاکرات نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے ہمیں یہ موقع نہیں ملا کہ بلوچستان کی پسماندگی، امن و امان اور دہشت گردی کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اچھے منصوبے لے کر آ سکیں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود ہماری کوشش ہو گی کہ بلوچستان کے لیے مختص فنڈز ریلیز کروا کر صوبے کے عوام پر خرچ ہوں، اگر ایسا ہوا تو یہ بڑی کامیابی ہو گی۔ سب کہتے ہیں کہ وہ بلوچستان کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اس کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ ہم بلوچستان پر کتنا خرچ کرتے ہیں۔ 
وفاقی بجٹ میں نئے ٹیکسز کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’بجٹ میں ٹیکسز لگانے پر ہمیں اعتراض نہیں، ٹیکس اور ریونیو جمع ہونا چاہیے مگر ہمیں ٹیکسز لگانے کے طریقے پر اعتراض ہے۔ بجٹ میں جارحانہ قسم کے ٹیکسز لگائے گئے ہیں سب سے زیادہ غریب طبقے پر ٹیکسز لگائے گئے ہیں۔ ایک لاکھ تنخواہ والے پر ٹیکسز میں سو فیصد اضافہ جبکہ 20 لاکھ روپے ماہانہ کمانے والے پر ٹیکسز میں صرف چار فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔‘
’صوبائی ٹیکسز جمع کرنے کے نظام میں بہتری کی گنجائش ہے۔ بلوچستان ریونیو اتھارٹی میں بہتری آ رہی ہے امید ہے وہ اپنے اہداف حاصل کرے گی۔‘

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ معاشی صورتحال کی وجہ سے بجٹ پر کافی تنقید ہوئی۔ اگر مشاورت ہوتی تو ہم اس کو بہتر کر سکتے تھے۔ اتحادیوں کے ساتھ ضرور مشاورت ہونی چاہیے۔ نہ صرف اتحادیوں بلکہ اپوزیشن کو بجٹ اور معیشت کی پالیسیوں میں اعتماد میں لینا چاہیے ان سے تجاویز لینی چاہییں۔ پاکستان کے عوام ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان کو نظر آنا چاہیے کہ کون معیشت پر سنجیدہ ہیں۔
’بجٹ کے حوالے سے ہماری حکمت عملی کافی کمزور رہی، اگر ہم نے دباؤ ڈالنا ہوتا تو ڈال سکتے تھے مگر ہم ہمیشہ زبان پر چلتے ہیں۔ یہی سیاست کا طریقہ ہے۔ ن لیگ کے ساتھ بروقت مذاکرات نہیں ہو سکے، ہمارے ساتھ کیے گئے معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہو رہا تھا اس لیے ہمارے ایم این ایز بغاوت کر رہے تھے۔ مجبوراً ہمیں بجٹ کے درمیان بات کرنا پڑی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے شمسی توانائی پر ٹیکسز کے نفاذ کی مخالفت کی۔ ہماری وجہ سے یہ ٹیکسز ختم ہوئے ورنہ کسی بابو کا ارادہ تھا کہ گھروں میں سولر سے پیدا ہونے والی بجلی پر ٹیکس لگائے۔‘
ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات اور آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا دہشت گردی کے حوالے سے بڑا واضح مؤقف اور جامع پالیسی و سوچ ہے۔ وفاقی حکومت نے آپریشن کے حوالے سے اعلان کیا ہے اور اس سلسلے میں وزیراعظم نے آل پارٹیز کانفرنس بھی بلائی ہے۔
’پیپلز پارٹی اس کانفرنس میں ضرور شرکت کرے گی اور وہاں بلوچستان سمیت دیگر مسائل پر اپنا مؤقف رکھے گی۔ ہماری سوچ یہ ہے کہ اتفاق رائے بنانا ہو گا تاکہ ان تمام مسائل کا صحیح طریقے سے مقابلہ کر سکیں۔‘

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بجٹ میں جارحانہ قسم کے ٹیکسز لگائے گئے ہیں سب سے زیادہ غریب طبقے پر ٹیکسز لگائے گئے ہیں۔ (فائل فوٹو: پکسابے)

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حوالے سے دہشت گردی اور امن وامان نہ صرف قومی بلکہ عالمی مسئلہ ہے، ہماری کوشش ہے کہ صوبائی سطح پر تمام سٹیک ہولڈرز اور سیاسی قوتوں کے ساتھ رابطے میں رہیں۔ اے پی سی میں بھی تمام جماعتوں کو موقع ملے گا کہ وہ اپنا مؤقف دیں۔
بلاول بھٹو نے 8 فروری کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات پر کہا کہ ’8 فروری کے عام انتخابات میں دھاندلی سے پیپلز پارٹی کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچنے کی بات سے سخت اختلاف رکھتا ہوں، پیپلز پارٹی کے کئی امیدواروں کے بھی بلوچستان، پنجاب، خیبر پختونخوا اور کراچی کے مختلف حلقوں کے حوالے سے انتخابی کیسز عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو ہر انتخابات میں تحفظات رہے ہیں۔‘
’آٹھ فروری کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کی بات درست نہیں۔ ہر انتخابات میں پیپلز پارٹی نے دھاندلی دیکھی، سوشل میڈیا پر سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ یہ سلسلہ ختم کرنا ہے تو یہ فیصلہ کرنا ہو گا اور سیاستدانوں کو اتفاق رائے پیدا کرنا ہو گا کہ نہ صرف میچ صحیح چلیں بلکہ جو میچ جیتیں اسے تسلیم بھی کریں۔‘
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا کہ ’ہمارے سیاسی مخالفین جیتے یا ہارتے انہوں نے رونا ہی تھا۔ اگر نام نہاد جمہوریت کے نمائندوں اور حقیقی آزادی دلوانے کی بات کرنے والے والوں کا یہ مؤقف ہو گا کہ وہ سیاسی قوتوں کی بجائے دہشت گردوں، جرنیلوں اور ایجنسیوں سے بات کریں گے تو پھر تبدیلی نہیں آ سکتی۔‘
وزیراعلٰی بلوچستان کی تبدیلی کے حوالے سے افواہوں سے متعلق سوال پر بلاول بھٹو نے کہا کہ ’وزیراعلیٰ کی تبدیلی بلوچستان والوں کی عادت ہو گی ہم تو اپنے صوبے میں وزیراعلیٰ تبدیل نہیں کر سکتے۔ وزیراعلٰی کی تبدیلی کی افواہیں میڈیا ہی پھیلاتا ہے اور وہی اسے روک سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کا وزیراعلٰی کی تبدیلی کا کوئی ارادہ نہیں۔ ہم تمام اتحادیوں کے ساتھ مل کر اپنا وقت پورا کریں گے۔‘

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عوام کو توانائی فراہم کرنے والے کسی وفاقی ادارے پر بھروسہ نہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے چیف جسٹس پر مقدمات سننے کے حوالے سے اعتراض پر بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ سب کو دائرے میں رہ کر سیاست کرنی چاہیے۔ چیف جسٹس یا کسی جج کو نشانہ بنانا مناسب نہیں۔
حالیہ بجٹ میں ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کو اہلیت کے حساب سے تنخواہیں ملنی چاہییں تاکہ ایسا نظام بنے کہ غریب بھی ان شعبوں میں کام کر سکیں۔ نہ صرف سرکاری بلکہ نجی اداروں میں بھی محنت کے صلے کی سوچ ڈالنی چاہیے۔ اچھی تنخواہوں کے بغیر کرپشن کو فروغ ملتا ہے۔
لوڈشیڈنگ میں اضافے کے حوالے سے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا کہ جب بھی اسلام آباد جاتا ہوں تو کہتے ہیں کہ ہم نے لوڈ شیڈنگ ختم کر دی، یہ دعویٰ سنہ 2018 میں کیا گیا۔ اگر لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے تو اب ہم کون سے پاکستان میں رہتے ہیں۔
’لاڑکانہ میں 18 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ سبی میں 51 سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بجلی چوری ہوتی ہے۔ یہ نظام کی خامی ہے۔ پورے کے پورے صوبے کو آپ کیسے بجلی چور کہتے ہیں۔ عوام کو توانائی فراہم کرنے والے کسی وفاقی ادارے پر بھروسہ نہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو متبادل توانائی پر توجہ دینا ہو گی۔‘

شیئر: