Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ

کاز لسٹ میں بتایا گیا ہے کہ فیصلہ سنانے کے لیے فل کورٹ بیٹھے گی (فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان کی سپریم کورٹ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا محفوظ فیصلہ آج سنائے گی۔ رجسٹرار آفس سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کی گئی کاز لسٹ کے مطابق فیصلہ آج جمعے کو سنایا جائے گا۔
کاز لسٹ میں بتایا گیا ہے کہ فیصلہ سنانے کے لیے فل کورٹ بیٹھے گی۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ فیصلہ سنائے گی۔
اس سے قبل مخصوص نشستوں سے متعلق چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا دوسرا مشاورتی اجلاس ہوا جس میں آج محفوظ فیصلہ سنانے کا کہا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیرِصدارت اجلاس میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر غور کیا گیا۔ اس سے قبل گذشتہ روز بھی سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ میں مشاورتی اجلاس ہوا تھا۔ اجلاس میں فل کورٹ کے 13 ججز شامل تھے، مخصوص نشستوں سے متعلق اجلاس تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہا تھا۔
فل کورٹ میں شامل ججوں میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل تھے۔
مزید برآں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ بھی فل کورٹ کا حصہ ہیں۔
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس پر سپریم کورٹ کے فل کورٹ میں سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان بھی شامل ہیں۔
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کیا ہے؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کے فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ نے 14 مارچ کو کالعدم قرار دیا تھا اور الیکشن کمیشن کو ہدایت جاری کی تھی کہ وہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرے۔

الیکشن کمیشن کو ہدایت جاری کی گئی تھی کہ وہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرے (فوٹو اے ایف پی)

عام انتخابات کے بعد سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی درخواست میں مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا مطالبہ کیا تھا، تاہم 4 مارچ کو الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 کے تحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کی تھیں۔ 
  مئی کو سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کے الیکشن کمیشن کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کر دیا تھا۔
اس سے قبل 3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہو گیا تھا۔
سپریم کورٹ میں اب تک ہونے والی سماعتوں کا احوال 
سپریم کورٹ نے 9 جولائی کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
2 جولائی کو سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ ’الیکشن کمیشن نے خود آئین کی سنگین خلاف ورزی کی۔ کیا بنیادی حقوق کے محافظ ہونے کے ناتے ہماری ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کریں؟‘

سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی درخواست میں مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا مطالبہ کیا تھا (فوٹو اے ایف پی)

اس سے گذشتہ سماعت پر سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ تحریک انصاف ایک سال کا وقت لینے کے باوجود انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروا سکی۔
 جون کو سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے اہم ریمارکس دیے تھے کہ سپریم کورٹ کا مقصد تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا ہرگز نہیں تھا۔
 25  جون کو سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’جب آمر آئے تو سب ساتھ مل جاتے ہیں، وزیر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں اور جب جمہوریت آئے تو چھریاں نکال کر آجاتے ہیں۔‘
24  جون کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے۔‘

شیئر: