عمران خان، عارف علوی اور قاسم سوری پر آرٹیکل چھ کا اطلاق، قانون کیا کہتا ہے؟
عمران خان، عارف علوی اور قاسم سوری پر آرٹیکل چھ کا اطلاق، قانون کیا کہتا ہے؟
پیر 15 جولائی 2024 15:33
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
سپریم کورٹ کے صدر عارف علوی کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے کے ازخود نوٹس کیس کے تفصیلی فیصلے میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اضافی نوٹ لکھا تھا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار اعلٰی سول، منتخب اور آئینی عہدیداروں پر آئینی عمل کو سبوتاژ کرنے کے الزام میں آرٹیکل چھ کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا۔
ان عہدیداروں میں سابق وزیراعظم عمران خان، سابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری شامل ہیں۔
اس بات کا اعلان وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تحریک انصاف کی قیادت نے تحریک عدم اعتماد کے آئینی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے بدنیتی سے اسمبلیوں کو توڑا۔ اس کے علاوہ ملک کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کو نقصان پہنچاتے ہوئے انہیں خط لکھا جو ملکی مفاد کے خلاف اور ملک دشمنی پر مبنی ایجنڈے کے تحت کیا گیا۔ اس وجہ سے ہی ان تین شخصیات کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے صدر عارف علوی کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے کے ازخود نوٹس کیس کے تفصیلی فیصلے میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اضافی نوٹ لکھا تھا۔
اس نوٹ کے مطابق ’سپیکر، ڈپٹی سپیکر، صدر اور وزیراعظم نے تین اپریل کو آرٹیکل پانچ کی خلاف ورزی کی۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے لے کر صدر اور وزیراعظم کی اسمبلیاں تحلیل کرنے تک کی کارروائی عدم اعتماد ناکام کرنے کے لیے تھی اور اس سے عوام کی نمائندگی کا حق متاثر ہوا۔‘
’آئین کا آرٹیکل 5 آئین سے وفاداری کا سبق دیتا ہے لیکن اسے آئین کی خلاف ورزی کے لیے استعمال کیا گیا، اس لیے آرٹیکل 5 کے تحت آئین پاکستان کی خلاف ورزی پر آرٹیکل 6 کی کارروائی کا راستہ موجود ہے۔ پارلیمنٹ فیصلہ کرے کہ آیا ان اقدامات پر آئین کا آرٹیکل 6 لاگو ہوتا ہے یا نہیں۔ آرٹیکل 6 کی کارروائی پر عمل کرا کر مستقبل میں ایسی صورتحال کے لیے دروازہ کھلا چھوڑنا ہے یا بند کرنا ہے؟‘
بعض قانونی ماہرین کے مطابق اس نوٹ نے حکومت کو آرٹیکل 6 کی کارروائی کرنے کا جواز فراہم کیا تھا۔ تاہم اس وقت حکومت نے اس پر سوچ بچار کے بعد خاموشی اختیار کر لی تھی۔
آرٹیکل 6 کیا ہے؟
پاکستانی آئین کے آرٹیکل 6 کے مطابق آئین شکنی کو ریاست سے سنگین بغاوت کا جرم قرار دیا گیا ہے جس کی سزا پارلیمنٹ نے عمر قید یا موت تجویز کی ہے۔
آئین کا آرٹیکل چھ دستور توڑنے کو سنگین غداری قرار دیتا ہے۔
آرٹیکل چھ کی شق ایک کے مطابق ’کوئی بھی شخص جو بزور طاقت، یا بزعم طاقت یا کسی اور غیرآئینی طریقے سے آئین کو توڑے، اس کی توہین کرے، معطل کرے یا پھر عارضی طور پر ملتوی کرے یا پھر ایسا کرنے کی کوشش یا سازش کرے تو ایسا شخص آئین سے سنگین غداری کا مرتکب ہو گا۔‘
اسی آرٹیکل کی شق نمبر دو کے مطابق جو شخص بھی آئین توڑنے کے عمل میں مدد کرے یا اس پر ابھارے یا تعاون کرے تو وہ بھی سنگین غداری کا مرتکب ہو گا۔
اس آرٹیکل کی شق دو اے کے مطابق سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور کوئی اور عدالت اس سنگین غداری کے عمل کی توثیق نہیں کرے گی۔
اس آرٹیکل کی شق تین کے مطابق پارلیمنٹ قانون کے مطابق سنگین غداری کی سزا متعین کرے گی۔
آرٹیکل 6 کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟
آرٹیکل 6 کے تحت کسی بھی فرد کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا اختیار صرف وفاقی حکومت کے پاس ہے۔ جو اس بارے میں ضروری تحقیقات اور مواد بھی اکٹھا کر سکتی ہے۔
یہ مقدمہ وفاقی حکومت کی جانب سے نامزد کردہ کوئی مجاز افسر ہی درج کرا سکتا ہے۔ ماضی قریب میں آرٹیکل 6 کا مقدمہ سابق آمر پرویز مشرف پر سنہ 2013 میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے قائم کیا تھا۔
اس مقدمے کے لیے سیکریٹری داخلہ کو شکایت کنندہ بنایا گیا تھا۔ یہ مقدمہ چلانے کے لیے وفاقی حکومت یعنی کابینہ کی جانب سے منظوری لی جاتی ہے جبکہ کابینہ کی منظوری سے ہی فوجداری قوانین کے ترمیمی ایکٹ برائے سپیشل کورٹ 1976 کے سیکشن چار کے مطابق ایک خصوصی عدالت قائم کی جاتی ہے جو اس مقدمے کو سننے کی مجاز ہو گی۔
یہ عدالت تین ججوں پر مشتمل ہو گی جو ہائی کورٹ کے موجودہ جج ہوں گے اور ان کے نام عدالتی فیصلوں کے مطابق متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو تجویز کرنے ہوں گے۔ حکومت یا سپریم کورٹ کے پاس اس تعیناتی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
یہ عدالت متعلقہ فریقین کو نوٹس کر کے معاملے کے باضابطہ سماعت کرتے ہوئے فیصلہ کرتی ہے۔ قانون کے تحت اس عدالت کی تشکیل کو ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں آج تک صرف ایک مرتبہ ہی آرٹیکل 6 کے تحت مقدمے کی کارروائی مکمل ہوئی جس میں سابق آمر پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ لیکن لاہور ہائی کورٹ کے اس وقت کے جسٹس مظاہر علی نقوی کی سربراہی میں بننے والے فل بینچ نے 13 جنوری 2020 کو خصوصی عدالت کے قیام کو ہی غیرآئینی و غیرقانونی قرار دے دیا تھا۔
خصوصی عدالت کے قیام کو غیرقانونی قرار دیے جانے کے بعد اس عدالت کی جانب سے دی گئی سزا بھی کالعدم ہو گئی تھی۔
بعدازاں 10 جنوری 2024 کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چار رکنی بینچ نے سنگین غداری کے کیس میں خصوصی عدالت کی طرف سے پرویز مشرف کو سنائی گئی سزا اپنے فیصلے میں درست قرار دیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا تھا۔
بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان، اور جسٹس اطہر من اللہ بھی شامل تھے۔