Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی ڈبل شاہ جنہوں نے امریکی فراڈیے چارلس پونزی کی یاد تازہ کی

باسط اعجاز بتاتے ہیں کہ ’ایک وقت تھا وزیر آباد کے بینک خالی ہو گئے تھے۔‘ (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
آج سے تقریباً ایک صدی پہلے 1920 میں چارلس پونزی نامی ایک اطالوی نژاد امریکی شہری نے جنگ عظیم اول کے بعد دنیا کی بگڑتی ہوئی معیشت میں ڈاک ٹکٹ بیچنے کا ایک کاروباری آئیڈیا سوچا۔ جس کے مطابق انہوں نے امریکہ میں بیٹھے بیٹھے یورپی ڈاک ٹکٹ بیچ کر ان پر امریکی ڈالروں میں نفع کمانا تھا لیکن اس کے لیے ان کے پاس سرمایہ نہیں تھا۔
کئی بینکوں نے بھی جب قرض نہ دیا تو چارلس پونزی نے اپنی انویسٹمنٹ کمپنی کھول لی اور لوگوں کو سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنے لگے۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ جو بھی کوئی رقم جمع کروائے گا، اسے 90 روز میں جمع کروائی گئی رقم کے دوگنا واپس کی جائے گی۔
دوسرے ہی مہینے ان کے پاس اس وقت کی 25 ہزار ڈالر کی رقم جمع ہوئی اور چوتھے مہینے میں وہ اس وقت کے 25 لاکھ امریکی ڈالر (اس وقت کے مطابق 3 کروڑ 80 لاکھ) جمع کر چکے تھے۔
اس کے بعد ایسا بھی وقت آیا کہ انہیں ایک دن میں 10 لاکھ امریکی ڈالر تک کی سرمایہ کاری ملنا شروع ہو گئی۔
سادہ ترین اقتصادی تجزیے کے مطابق بھی وہ اس رقم سے کوئی کاروبار نہیں کر رہے تھے۔ صرف نئے کھاتہ داروں سے رقم لے کر پرانے کھاتہ داروں کو واپس کر رہتے تھے اور اس کاروبار کا مدار اسی بات پر تھا کہ سرمایہ کار دن بدن بڑھتے رہیں۔
جنوری 1920 میں شروع ہونے والا یہ کاروبار جولائی کے مہینے تک چلا اور پھر اخبارات نے خبریں شائع کرنا شروع کیں۔
امریکی حکومت نے تحقیقات کا آغاز کیا جب پونزی کا کاروباری ریکارڈ چیک کیا گیا تو وہ محض چھوٹے کارڈز پر رقم جمع کروانے والوں کے نام لکھے ہوئے تھے۔ سستے ٹکٹ خرید کر مہنگے بیچنے کے الزام پر ان پر مقدمہ درج ہوا اور ان کی گرفتاری پر یہ کاروبار دھڑام سے گر گیا۔

جنوری 1920 میں شروع ہونے والا چارلس پونزی کا یہ کاروبار جولائی کے مہینے تک چلا (فائل فوٹو: انٹرنیشنل بینکر)

بوسٹن کے پانچ بینک ڈوب گئے جہاں پونزی نے اکاؤنٹ کھلوائے ہوئے تھے۔ سرمایہ کاروں کو ایک ڈالر کے بدلے 30 سینٹ واپس ملے اور پونزی اس وقت مجموعی طورپر70 لاکھ ڈالر کے مقروض ہو چکے تھے۔
امریکہ میں اس پہلے بڑے مالیاتی فراڈ کے بعد بھی لوگ اس طرح کے فراڈ کے جھانسے میں آتے رہے۔
اس وقت اخبارات نے اس چارلس پونزی فراڈ کو ’پونزی فراڈ‘ لکھا تھا تو ایسی تمام سکیمیں جہاں لوگوں کو پیسہ ڈبل کرنے کا جھانسہ دے کر رقم ڈبل کی جاتی ہیں۔ اسے ایک صدی بعد بھی پونزی فراڈ ہی کہا جاتا ہے۔
پاکستان کا چارلس پونزی ڈبل شاہ
اب آتے ہیں پاکستان میں اب تک کے ہونے والے پونزی فراڈ پر۔ جو تقریباً اس امریکی چارلز پونزی کی نکالی گئی تدبیر کے اسی سال بعد وزیر آباد کے چھوٹے سے علاقے میں وقوع پذیر ہوا۔
سال 2004 میں وزیرآباد سے تعلق رکھنے والے ایک سائنس ٹیچر سبط حسن شاہ نے سرکاری نوکری چھوڑ کر دبئی جا کر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ سبط حسن شاہ ایک غریب گھر میں پیدا ہوئے تھے۔
چھ مہینے دبئی گزارنے کے بعد ان کا وہاں بھی دل نہیں لگا اور وطن واپس آ گئے۔ وزیرآباد سے تعلق رکھنے والے ایک شہری سجاد بھٹہ بتاتے ہیں کہ ’وہ جب 2004 میں آیا تھا تو سب سے پہلے اس نے اپنے محلے کے ایک ماربل کا کام کرنے والے شخص سے اس وعدے پر پیسے پکڑے کہ وہ 15 دن میں ڈبل کر دے گا اور ایسا ہوا بھی۔ وہ دبئی سے جو پیسے کما کر لایا تھا میرے خیال میں، اس نے اسی کو استعمال کیا۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اس کے بعد دو اور افراد نے ان کو رقم دی جو 15 دن بعد ڈبل ہو گئی۔ ایک دو مہینوں میں ہی درجنوں لوگوں نے کو رقم جمع کروائی اور 15 دن بعد ڈبل وصول کر لی۔‘
گلی محلے سے یہ بات باہر نکلی تو صورت حال بدل گئی اور گوجرانوالہ ڈویژن میں لوگوں نے سرمایہ کرنی شروع کی۔ ااس کے بعد پیسے ڈبل ہونے کی مدت بھی زیادہ ہونے لگی۔ پہلے مہینہ پھر دو مہینے اور بالاخر 70 دن تک بات پہنچ گئی۔
کاروبار بڑھنے پر سبط حسن شاہ عرف ڈبل شاہ نے ایک بڑا ڈیرہ بنا لیا اور بہت سے ملازم رکھ لیے۔
گوجرانوالہ کے ایک شہری باسط اعجاز بتاتے ہیں کہ ’اس ڈیرے پر ہر وقت لوگوں کا رش لگا رہتا تھا اور ڈبل شاہ کے کارندے بس پرچیوں پر نام اور دستخط لکھ کر رسید دیتے تھےاور رقم گن کر رکھ لیتے تھے۔ اس ڈیرے پر پیسے بوریوں میں بھر بھر کر رکھے جاتے تھے۔‘
پورا گوجرنوالہ ڈویژن اپنی رقم ڈبل کروانے کے چکر میں تھا۔ لوگوں نے اپنے گھر، پلاٹ اور زیور بیچ کر سرمایہ کاری کی۔
باسط اعجاز بتاتے ہیں کہ ’ایک وقت تھا وزیر آباد کے بینک خالی ہو گئے تھے۔ لوگ پیسہ بینکوں میں رکھنے کی بجائے ڈبل شاہ کو دے رہے تھے۔ پراپرٹی کی قیمتیں گر گئیں کیوں کہ ہر کوئی پراپرٹی بیچ رہا تھا۔‘

کاروبار بڑھنے پر سبط حسن شاہ عرف ڈبل شاہ نے ایک بڑا ڈیرہ بنا لیا اور بہت سے ملازم رکھ لیے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

سبط حسن شاہ کا یہ کارباری جھانسہ کوئی 18 ماہ چلا۔ نیب کی دستاویزات کے مطابق اس عرصے میں کل 48 ہزار افراد نے ان کے ساتھ سرمایہ کاری اور اس قلیل مدت میں انہوں نے تقریباً سات ارب روپے اکھٹے کیے۔
جب سبط حسن شاہ کے کاروباری ماڈل نے بینکوں کر ہلا ڈالا تو مقامی اخبارات میں بھی اس کاروبار کا چرچا ہونے لگا۔
اس دوران ہی سال 2007 میں نیب نے انہیں گرفتار کر لیا اور ان کے ڈیرے سے نیب ریکارڈ کے مطابق تین ارب روپے کیش برآمد ہوا۔
ان پر احتساب عدالت میں فراڈ کا کیس چلا۔ یکم جوئی 2012 کو انہیں جرم ثابت ہونے پر 14 سال کی سزا سنائی گئی۔
تاہم سزا سنائے جانے تک وہ پانچ سال تک جیل میں قید رہے تو یہ پانچ سال ان کی سزا سے منہا کر دیے گیے۔ 15 مئی 2014 کو سزاؤں میں تخفیف اور قید کے دن کی سزا 12 گھنٹے پر محیط ہونے کے قانون کے تحت وہ اگلے دو سال بعد ہی سزا پوری کر کے رہا ہو گئے۔
بینکنگ جرائم پر وکیل ملک عثمان کہتے ہیں کہ ’پونزی فراڈ صرف اس وقت تک چلتا رہتا ہے، جب تک لوگ اس میں پیسہ ڈالتے رہتے ہیں۔ جس دن بھی اس میں بریک لگ جائے تو اسی وقت یہ ختم ہو جاتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا ’اصل میں ایک نہ ایک دن جلد یا بدیر اس نے اس طرح ختم ہونا ہوتا ہے کہ فراڈ کرنے والا یا تو اچانک غائب ہو جائے یا ریاست اس سے باز پرس کرے۔‘
’جو لوگ زیادہ لالچ میں جڑے رہتے ہیں، وہ آخر میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہوتے ہیں۔ اور صرف افراد ہی نہیں بلکہ کمپنیاں بھی اس طرح کے فراڈ کے لیے بنائی جاتی ہیں تاکہ اچھے طریقےسے لوگوں کا اعتماد حاصل ہو سکے۔‘
سبط حسن جیل سے رہائی کے 16 ماہ بعد اکتوبر 2015 میں لاہور میں اپنے گھر حرکت قلب بند ہونے کے سبب اپنی جان سے گئے۔
جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے وزیر آباد چھوڑ دیا تھا اور لاہور میں ہی مستقل رہائش اختیار کر لی تھی۔
نیب نے ریکور ہونے والے تین ارب روپے لمبی چوڑی انکوائری اور ڈبل شاہ کی پرچیوں کے ریکارڈ اور کلیم جمع کروانے والوں کی پرچیوں سے میچ کر کے ان کو بانٹ دیے۔
اب بھی سینکڑوں افراد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پیسے ڈوب گئے جو کبھی بھی واپس نہیں ملے۔

شیئر: