Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش: طلبہ کے احتجاج میں شدت، سرکاری ٹی وی سٹیشن کو آگ لگا دی

دارالحکومت ڈھاکہ کے علاوہ بنگلہ دیش کے دیگر کئی شہروں میں دن بھر پرتشدد مظاہرے ہوتے رہے (فوٹو: اے ایف پی)
بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ نے جمعرات کو سرکاری ٹیلی ویژن کے ہیڈکوارٹرز کو آگ لگا دی۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق بنگلہ دیش میں جاری طلبہ کے احتجاج کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 32 تک پہنچ گئی ہے۔
مظاہرین نے جمعرات کو سرکاری ٹی وی بنگلہ دیش ٹیلی ویژن (بی ٹی وی) کے ہیڈکوارٹرز کو اس وقت آگ لگا دی جب ایک دن پہلے وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے سرکاری ٹیلی ویژن پر آکر طلبہ سے پرامن رہنے کی اپیل کی تھی۔
جمعرات کو پولیس نے جب سینکڑوں مظاہرین پر ربڑ کی گولیاں چلائیں تو مظاہرین مشتعل ہوگئے جس کے سبب پولیس اہلکار پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئے۔
ہنگاموں سے نمٹنے والے پولیس کے دستے پیچھے ہٹ کر بی ٹی وی کے ہیڈکوارٹرز میں داخل ہوگئے جن کا پیچھا کرتے ہوئے مظاہرین بھی سرکاری ٹی وی کے دفتر میں گھس گئے۔
بی ٹی وی کے ایک افسر نے اے ایف پی کو بتایا دفتر میں گھس کر مشتعل مظاہرین نے ٹی وی کی عمارت اور باہر کھڑی کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔
سرکاری ٹی وی کا کہنا تھا کہ چینل کے کئی ملازمین عمارت کے اندر پھنسے ہوئے ییں، تاہم بعد میں ٹی وی کے ایک افسر نے بتایا کہ ’پھنسے ہوئے تمام ملازمین کو عمارت سے بحفاظت باہر نکال لیا گیا ہے۔‘
وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے طلبہ کے احتجاج کے باعث سکولوں اور یونیورسٹیوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا ہے جب کہ پولیس ملک میں امن و امان کی صورت حال پر قابو پانے کیے لیے اقدامات اٹھا رہی ہیں۔
شیخ حسینہ واجد نے بدھ کی رات کو ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے مظاہرین کی ہلاکتوں کی مذمت کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ قتل میں ملوث افراد کو ان کی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر سزا دی جائے گی۔
تاہم ان کی پرامن رہنے کی اپیل کے باجود سڑکوں پر تشدد میں اضافہ ہوا اور پولیس نے آنسو گیس کے شیل اور ربڑ کی گولیاں چلا کر مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔

سرکاری ٹی وی کا کہنا تھا کہ چینل کے کئی ملازمین عمارت کے اندر پھنسے ہوئے ییں (فوٹو: اے ایف پی)

جمعرات کو پرتشدد مظاہروں میں کم سے کم 25 افراد ہلاک ہوگئے جب کہ اس سے قبل رواں ہفتے کے دوران 7 مظاہرین ہلاک ہوئے تھے۔
ہسپتال کی جانب سے فراہم کی جانے والی معلومات کے مطابق دو تہائی اموات پولیس ہتھیاروں کے سبب ہوئی ہیں۔
ڈھاکہ کے اوتارا کریسنٹ ہسپتال کے ایک اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ان کے ہسپتال میں سات میتیں لائی گئیں۔ پہلی دو نعشیں طالب علموں کی تھیں جو ربڑ کی گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئے جبکہ دیگر پانچ کو گولیاں لگی تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس ہسپتال میں کم سے کم ہزار زخمیوں کو بھی لایا گیا جو پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے دوران زخمی ہوئے تھے جن میں سے اکثر کو ربڑ کی گولیاں لگی تھیں۔
ڈھاکہ ٹائمز نامی آن لائن اخبار کے دیدار ملاکن نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے اخبار کا ایک رپورٹر جھڑپوں کی کوریج کے دوران ہلاک ہوگیا۔
دارالحکومت ڈھاکہ کے علاوہ بنگلہ دیش کے دوسرے کئی شہروں میں دن بھر پرتشدد مظاہرے ہوتے رہے جہاں پولیس نے مظاہرین کو بزور طاقت روکنے کی کوشش کی۔
ڈھاکہ کے کینیڈین یونیورسٹی کے کیمپس کی چھت پر پھنسے 60 پولیس اہلکاروں کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے نکالا گیا۔

’حسینہ واجد ڈکٹیٹر ہیں‘

رواں مہینے روازنہ کی بیناد پر طلبا سرکاری ملازمتوں کے 50 فیصد کو مخصوص گروپوں کے لیے مختص کرنے والے کوٹہ سسٹم کو ختم کرنے کے لیے مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کوٹہ سسٹم کے تحت ملازمتیں دوسروں کے علاوہ 1971 کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والوں کے بچوں کے لیے بھی مختص ہیں جس کو ناقدین حکومت کی جانب سے اپنی حامیوں کو سرکاری ملازمتیں فراہم کرنے کا حربہ قرار دے رہے ہیں۔
شیخ حسینہ واجد کی حکومت پر انسانی حقوق کی تنظیمیں الزام لگاتے ہیں کہ اس نے ریاستی اداروں پر قبضہ کرکے اپنے حامیوں کو بھر دیا ہے اور مخالف آوازوں کو نکال باہر کیا ہے۔

ماہرین کے مطابق لوگ ریاست کے ظالمانہ رویے کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

حسینہ واجد کی حکومت پر اپوزیشن کے کارکنوں کو ماورائے عدالت قتل کرانے کے بھی الزمات ہیں۔
ناروے کی یونیورسٹی آف اوسلو میں بنگلہ دیش کے معاملات کے ماہر مبشر حسین کا کہنا ہے کہ ’حالیہ دنوں میں مظاہرے حسینہ واجد کی آمرانہ حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر غم و غصے  کے اظہار میں تبدیل ہوگئے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لوگ  ریاست کے ظالمانہ رویوں کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔‘
’مظاہرین حسینہ واجد کی قیادت پر سوالات اٹھا رہے ہیں اور ان کا الزام ہے کہ وزیراعظم طاقت کے بل بوتے پر اقتدار پر قابض ہیں۔ طالب علم تو حسینہ واجد کو ڈکٹیٹر قرار دے رہے ہیں۔‘

موبائل انٹرنیٹ کی بندش

جمعرات کو بنگلہ دیش بھر میں موبائل انٹرنیٹ بندش کا شکار رہا۔ دو دن قبل موبائل انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں نے فیس بک تک رسائی روک دی تھی جو کہ مظاہرین احتجاج کے لیے سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔
ٹیلی کمیونکیشن کے نائب وزیر زونید احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ حکومت نے کمپنیوں کو انٹرنیٹ بند کرنے کا حکم دیا ہے۔

شیئر: