دنیا بھر کے 87 ممالک میں 29 ہزار سے زائد پاکستانی قید ہیں: دفتر خارجہ
پیر 29 جولائی 2024 14:35
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
بعض اوقات پاکستانی مشنز کی مداخلت پر گرفتار افراد کو پولیس سٹیشنز سے ہی رہا کر دیا جاتا ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
دنیا بھر کے 87 ممالک میں 29 ہزار سے زائد پاکستانی قید ہیں جن میں سے 6550 ملزمان ہیں جبکہ 22 ہزار 500 قیدی ہیں جو مختلف جرائم میں سزا کاٹ رہے ہیں۔
پاکستان کے دفترخارجہ کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کو فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے 87 ممالک کے 93 شہروں میں قید پاکستانیوں میں امریکی شہر واشنگٹن میں 44 پاکستانی قید ہیں جبکہ ہیوسٹن میں 10 ملزمان اور 16 قیدی ہیں۔
برطانیہ کے شہر مانچسٹر جہاں 18 لاکھ کے قریب پاکستانی مقیم ہیں وہاں 330 پاکستانی قید ہیں۔ فرینکفرٹ میں ایک لاکھ 24 ہزار پاکستانی مقیم ہیں اور 78 پاکستانی قید ہیں جبکہ 16 کے خلاف مختلف نوعیت کے مقدمات چل رہے ہیں۔
سپین کے شہر میڈرڈ میں دو لاکھ 60 ہزار پاکستانی جن میں سے 80 قیدی ہیں جبکہ 26 کے خلاف مقدمات زیر التوا ہیں۔
اٹلی کے شہر روم میں پاکستانی کی آبادی تو تین لاکھ ہے لیکن وہاں پر 130 پاکستانی قیدی ہیں جبکہ 200 مختلف مقدمات میں زیرِحراست ہیں۔ یونان میں 615 پاکستانی قید ہیں جبکہ 196 کو مختلف مقدمات کا سامنا ہے۔
ایشیائی ممالک میں انڈیا کے شہر نئی دہلی میں 214 پاکستانی زیر حراست ہیں جبکہ 58 کو عدالتوں کی جانب سے سزا سنا کر جیلوں میں قید کیا گیا ہے۔
افغانستان کے شہر قندھار میں صرف 8 پاکستانی جبکہ 6 حراست میں ہیں۔ ملائشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ایک لاکھ 66 ہزار پاکستانی آباد ہیں جن میں سے 155 قیدی جبکہ 100 افراد زیر حراست ہیں۔
انقرہ میں 147 پاکستانی عدالتوں سے سزا پا کر جیلوں میں ہیں جبکہ 161 مختلف مقدمات میں پالیس اور دیگر اداروں کی حراست میں ہیں۔
قطر میں 338 پاکستانی مختلف جیلوں میں قید ہیں جبکہ بحرین میں پاکستانی قیدیوں کی تعداد 450 ہے۔ ابوظہبی میں 5292 پاکستانی مختلف جیلوں میں قید ہیں جبکہ دبئی میں قید پاکستانیوں کی تعداد 3300 ہے۔
بیرون ملک قید پاکستانی کن جرائم میں گرفتار ہوئے؟
دفتر خارجہ کے حکام کے مطابق پاکستانی مشنز کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک میں قید پاکستانی کم وبیش 20 قسم کے جرائم میں ملوث ہیں۔ جن میں غیرقانونی طریقے سے ملک میں داخلے یا ویزے کی میعاد سے زائد عرصے تک قیام، بغیر ورک پرمٹ کے کام کرنے اور غیرقانونی کرنسی رکھنے جیسے جرائم شامل ہیں۔
اسی طرح زیادہ تر پاکستانی بڑے جرائم جن میں قتل، منشیات کا استعمال یا قبضے میں رکھنا، جنسی تشدد یا ہراسانی، انسانی سمگلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، چوری، ڈکیتی، فراڈ، جعل سازی، منی لانڈرنگ، جاسوسی، منشیات سمگلنگ، غیر قانوی اسلحہ رکھنے، سائبر کرائم، لڑائی جھگڑے شامل ہیں کی وجہ سے جیلوں میں قید ہیں۔
بیرون ملک گرفتار پاکستانیوں کی قانونی امداد اور قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات
وزارت خارجہ کے حکام کا کہنا ہے کہ جب بھی کسی ملک میں پاکستانی کو قانون نافذ کرنے والے ادارے گرفتار کرتے ہیں تو سرکاری طور پر سفارت خانوں کو آگاہ کیا جاتا ہے۔
بعض اوقات پاکستانی مشنز کی مداخلت پر گرفتار افراد کو پولیس سٹیشنز سے ہی رہا کر دیا جاتا ہے۔ اگر کسی پاکستانی کے خلاف مقدمہ درج ہو جائے تو اسے تمام ممکنہ تعاون فراہم کیا جاتا ہے۔
تھانوں کے علاوہ تمام ممالک میں پاکستانی مشنز کے نمائندگان جیلوں کے دورے کرتے ہیں جہاں پاکستانی قیدیوں کو درپیش مسائل پر بات چیت کی جاتی ہے۔ قیدیوں سے ملاقات کے دوران خوراک، ادویات اور دیگر سہولیات بارے بھی پوچھا جاتا ہے۔ اسی طرح قیدیوں سے ان کے اہل خانہ کی ملاقاتوں کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔
اگر کسی قیدی کو ضرورت ہو تو اسے ہنگامی بنیادوں پر سفری دستاویزات بھی تیار کر کے دی جاتی ہیں جبکہ قیدیوں کے اہل خانہ کی جانب سے رحم کی اپیلیں یا مقدمات میں پٹیشنز بھی متعلقہ اداروں میں دائر کی جاتی ہیں۔
پاکستانی مشنز کی جانب سے موت کی سزا پانے والے قیدیوں کی سزاؤں کو جہاں ممکن ہو عمر قید میں تبدیل کروانے اور عام قیدیوں کی سزاؤں میں کمی کے لیے مسلسل کوششیں کی جاتی ہیں۔
قائمہ کمیٹی کا وزارت خارجہ کے اعداد وشمار اور کوششوں پر عدم اطمینان کا اظہار
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے وزارت خارجہ کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیشتر ممالک کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں پر قید یا گرفتار پاکستانیوں کا ڈیٹا دستیاب نہیں جو کہ مشنز کی ناکامی اور نااہلی جبکہ دیگر معلومات بھی انتہائی بنیادی نوعیت کی ہیں۔
کمیٹی چیئرمین عرفان صدیقی نے وزارت خارجہ کو ہدایت کی کہ اس سلسلے میں مختلف ممالک کے ساتھ خط و کتابت کی گئی ہے یا مقامی سطح پر کوئی معاہدے کیے گئے، ان کی تفصیلات جبکہ پاکستانی شہریوں کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات اور ان کا ریکارڈ بھی کمیٹی میں پیش کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ صرف یہ کہہ دینا کہ اتنے پاکستانی قید ہیں اور ہم ان کے لیے یہ کر رہے ہیں ناکافی ہے بلکہ ٹھوس اقدامات اور ان قیدیوں کے بارے میں ٹھوس تفصیلات فراہم کی جائیں۔