Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی قطر میں تدفین، ہزاروں افراد کی شرکت

اسماعیل ہنیہ کی تدفین کی عمل میں محدود افراد کو شرکت کی اجازت دی گئی جن میں ان کی ایک بیٹی سارہ بھی شامل تھیں (فوٹو: اے ایف پی)
فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی قطر میں نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد تدفین کر دی گئی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسماعیل ہنیہ کے ایران میں قتل کا الزام اسرائیل پر عائد کیا جا رہا ہے جس کے بعد غزہ جنگ میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
جمعے کو قطر کی سب سے بڑی مسجد امام محمد بن عبدالوھاب میں اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
اس کے بعد ان کی تدفین دارالحکومت دوحہ کے علاقے لسیل میں کی گئی۔
اسماعیل ہنیہ کا حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ تھے اور انہوں نے گزشتہ 10 ماہ سے غزہ کی پٹی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والے مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
اسماعیل ہنیہ کی تدفین کی عمل میں محدود افراد کو شرکت کی اجازت دی گئی جن میں ان کی ایک بیٹی سارہ بھی شامل ہیں۔
سارہ نے ایک ویڈیو بھی پوسٹ کی ہے جس میں انہیں اپنے والد کی قبر کا بوسہ لینے سے قبل اس پر مقدس پانی چھڑکتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
اسماعیل ہنیہ کی بیٹی نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’اس وقت میں اپنی روح کو مٹی تلے دفن کر کے رخصت ہو رہی ہوں۔ میں ساری دنیا کا درد اپنے سینے میں لیے ہوئے جا رہی ہوں۔‘

مسجد کا احاطہ بھر جانے کے بعد بہت سے افراد نے باہر دھوپ میں کھڑے ہو کر نماز جنازہ ادا کی (فوٹو: اے ایف پی)

جمعے کی صبح سوگواران مسجد امام محمد بن عبدالوھاب میں جمع ہوئے جہاں اسماعیل ہنیہ کا جسدِخاکی فلسطینی پرچم میں لپیٹ کر رکھا گیا تھا۔
مسجد کا احاطہ بھر جانے کے بعد بہت سے افراد نے باہر دھوپ میں کھڑے ہو کر نماز جنازہ ادا کی۔
قطر کے دارالحکومت میں مقیم ایک 25 سالہ اردنی شہری طاہر عادل نے کہا کہ ’وہ ایک علامت تھے، مزاحمتی رہنما تھے۔ لوگ ناراض ہیں۔‘
اس موقعے پر اسماعیل ہنیہ کے جانشین خالد مشعال نے نماز جنازہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’مقتول رہنما نے اپنے مشن اور اپنے لوگوں کی خدمت کی اور کبھی انہیں پس پشت نہیں ڈالا۔‘
دوسری جانب پاکستان اور ترکیہ میں جمعے کو یوم سوگ کے طور پر منایا گیا۔
اسماعیل ہنیہ اور ان کا محافظ بدھ کی صبح سورج نکلنے سے قبل ایک حملے کا نشانہ بنے تھے۔ وہ نومنتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے ایران میں آئے تھے۔

شیئر: