’معلوم نہیں اہلیہ اور بیٹی کب لوٹیں‘، پاکستان میں بسنے والے بنگالی پریشان
’معلوم نہیں اہلیہ اور بیٹی کب لوٹیں‘، پاکستان میں بسنے والے بنگالی پریشان
بدھ 7 اگست 2024 6:59
زین علی -اردو نیوز، کراچی
بنگلہ دیش کے موجودہ سیاسی حالات میں پاکستان میں بسنے والے بنگالی بھی پریشان ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھی دونوں ملکوں میں رہنے والے بنگالی ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔
اُن کی دوسری اور تیسری نسل کی آپس میں ناصرف رشتہ داریاں قائم ہیں بلکہ ایک دوسرے سے مِلنے جُلنے کا سلسلہ بھی تاحال جاری ہے۔
مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد پاکستان میں بنگالیوں کی سب سے بڑی آبادی کراچی میں بستی ہے۔
بنگلہ دیش کے موجودہ سیاسی حالات میں پاکستان میں بسنے والے بنگالی بھی پریشان ہیں۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھی دونوں ملکوں میں رہنے والے بنگالی ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔
اُن کی دوسری اور تیسری نسل کی آپس میں ناصرف رشتہ داریاں قائم ہیں بلکہ ایک دوسرے سے مِلنے جُلنے کا سلسلہ بھی تاحال جاری ہے۔
مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد پاکستان میں بنگالیوں کی سب سے بڑی آبادی کراچی میں بستی ہے۔
بنگالی ایکشن کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ ’کراچی میں 20 لاکھ سے زائد بنگالی آباد ہیں۔ کراچی کے سات اضلاع میں تقریباً 34 علاقے ایسے ہیں جہاں بنگالی کمیونٹی اپنے روایتی رہن سہن کے مطابق زندگی گزار رہی ہے۔‘
’یہاں کا پہناوا، خوراک اور شادی بیاہ سمیت دیگر تقریبات بھی مشرقی پاکستان میں رہنے والے بنگالیوں سے جُدا نہیں ہیں۔‘
شہر میں ایسے بھی کئی خاندان آباد ہیں جن کے عزیز و اقارب کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے موقع پر پاکستان کا ساتھ دینے کی پاداش میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اسی وجہ سے ان خاندانوں کے کئی افراد نے اپنی زندگیاں مہاجر کیمپوں میں ہی گزار دی ہیں جنہیں اب محصورینِ بنگال کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے اور وہ آج بھی اپنے پیاروں سے ملنے کی امید دل میں لیے زندگی گزار رہے ہیں۔
کراچی کے علاقے ضیا کالونی کے رہائشی عبدالرحمان بنگلہ دیش میں کشیدگی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ان کی اہلیہ اور بیٹی بنگلہ دیش میں ہیں، اگست میں انہیں پاکستان واپس لوٹنا تھا، تاہم حالات کی وجہ سے معلوم نہیں کہ اب وہ کب واپس لوٹیں گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر ان کے خاندان کے کچھ افراد پاکستان میں رہے اور کچھ مشرقی پاکستان میں ہی رہے۔‘
’بھائیوں اور بہنوں نے تعلق کو جوڑے رکھنے کے لیے ایک دوسرے کے بچوں کے ساتھ شادی کروائیں جس کے باعث دونوں ملکوں میں بٹا خاندان جُڑا رہا ہے۔‘
عبدالرحمان نے مزید بتایا کہ’بیٹی کے سسرال والوں سے ملنے کے لیے اہلیہ ڈھاکہ گئی تھیں کہ اچانک وہاں کے حالات خراب ہوگئے۔‘
’ٹی وی اور موبائل پر دیکھا کہ بنگلہ دیش میں طلبہ نے احتجاج کرکے شیخ حسینہ واجد کی حکومت ختم کردی ہے۔ حکومت کے خاتمے سے قبل کئی روز تک پولیس اور مظاہرین میں شدید ترین جھڑپیں ہوتی رہیں۔‘
عبدالرحمان کے مطابق ’ایک ہفتے قبل گھر والوں سے رابطہ ہوا لیکن گذشتہ چھ دن سے کوئی بات نہیں ہوسکی اور اب ایک رشتے دار کے ذریعے ان کی واپسی کا پیغام ملا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’انٹرنیٹ، موبائل سروس اور ٹیلی فون سمیت تمام ذرائع سے اپنی اہلیہ اور بیٹی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے بات نہیں ہو سکی۔‘
’دو روز قبل اہلیہ نے کسی عزیز سے رابطہ کرکے بتایا کہ انہوں نے جمعرات کو بنگلہ دیش سے نکلنے کا انتظام کرلیا ہے اور وہ جلد ہی پاکستان واپس پہنچ جائیں گی۔‘
عبدالرحمان اور ان کے علاقے میں رہنے والے دیگر بنگالی بنگلہ دیش کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
کراچی میں آباد بنگالی برادری کے افراد شیخ حسینہ واجد کے خلاف احتجاج پر بھی مِلی جُلی رائے رکھتے ہیں۔ بعض کے خیال میں احتجاج کرنے والے حق پر ہیں تو کوئی املاک کے نقصان پر انہیں تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔
کراچی کی رہائشی آمنہ شیخ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ان کا خاندان بنگلہ دیش میں آباد ہے، اُن کے بڑوں کو پاکستان کا ساتھ دینے پر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘
انہوں نے شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’طلبہ نے جائز مطالبات پر احتجاج کیا ہے، اور بنگلہ دیش میں کئی برسوں سے قائم حکومت کا خاتمہ کرکے اچھا کام کیا ہے۔‘
آمنہ شیخ کے مطابق ’شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے کوٹہ سسٹم سمیت کئی ایسے اقدامات تھے جن سے بنگلہ دیش میں رہنے والے بہت پریشان تھے۔‘
انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں رہنے والے بنگالیوں کے شناختی کارڈ سمیت دیگر دستاویزات کے مسائل کے حل کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔
’ہم پاکستان میں رہنے والے پاکستانی بنگالی ہیں، ہمارا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے۔ ہمارے بزرگوں نے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور ہم اس فیصلے کو آج بھی درست سمجھتے ہیں۔‘
واضح رہے کہ 1980 کی دہائی میں محصورینِ بنگال کی پاکستان باعزت واپسی کے لیے اُٹھنے والی آوازیں بھی اب تھم گئی ہیں۔
جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ سمیت دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں اب سقوطِ ڈھاکہ کی یاد میں منعقد ہونے والی تقاریب میں محصورینِ بنگال کا ذکر تو کرتی ہیں لیکن ان کے لیے عملی اقدامات نہیں کرتیں۔
دوسری جانب محصورینِ بنگال کے اہل خانہ آج بھی حکومتِ پاکستان سے یہ امید لگائے ہوئے ہیں کہ حکومت انہیں اُن کے پیاروں سے ملا سکتی ہے۔