Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان پوسٹ آفس سے امریکہ بجھوائی گئی ایک مہینے کی ڈاک واپس کیوں آ گئی؟

پاکستان سے امریکہ اشیا بھجوانے کے لیے پاکستان پوسٹ کا ڈاک سسٹم سب سے سستا ترین ذریعہ ہے (فوٹو: اے ایف پی)
’گذشتہ دو مہینے سے امریکہ نے اپنے ڈاک کے قوانین میں سختی کی ہے جس کی وجہ سے ایک ماہ سے پاکستان سے بھیجی گئی سینکڑوں کی تعداد میں ڈاک واپس لوٹا دی گئی ہے اور یہ کہا گیا کہ امریکہ میں رائج ڈاک کے نئے قوانین کی پاسداری نہ کرنے پر یہ ڈاک واپس بجھوائی جا رہی ہے۔‘
یہ کہنا تھا کہ پاکستان پوسٹ کی بین الاقوامی سروس کے ایک اعلٰی افسر کا جو ابھی اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔
خیال رہے کہ پاکستان سے امریکہ اشیا بھجوانے کے لیے پاکستان پوسٹ کا ڈاک سسٹم سب سے سستا ترین ذریعہ ہے۔ دو کلو تک کی اشیا محض 12 سو روپے میں بھجوائی جا سکتی ہیں۔
امریکہ نے ایسے کون سے نئے قوانین لاگو کیے ہیں جن پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سینکڑوں کی تعداد میں ڈاک واپس آئی ہے؟
جب یہ سوال پاکستان پوسٹ کی انٹرنیشنل سروس کے اعلٰی افسر سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے سال 2021 سے اپنے ڈاک کے قوانین میں ترمیم کی ہے جس کے مطابق ہر ڈاک کا ڈیجیٹل ریکارڈ یا الیکٹرانک ایڈوانس ڈیٹا بھی ساتھ بھجوانا ہوتا ہے۔
’ہم نے 2021 سے ہی اس معیار پر پورا اترنے کے لیے پاکستان پوسٹ کی صلاحیت میں اضافہ کر لیا تھا اور بھر پور طریقے سے اس پر عمل بھی کر رہے تھے اور یہ مسئلہ کبھی بھی درپیش نہیں آیا۔‘
خیال رہے کہ امریکہ میں الیکٹرانک ایڈوانس ڈیٹا یا ای اے ڈی کا اطلاق ہونے کے بعد امریکہ میں پہنچنے والی ہر ڈاک سے پہلے سے اس کا ڈیجیٹل ریکارڈ پہنچنا ضروری ہے۔
اس ڈیجیٹل ریکارڈ میں بھیجنے والے کے سارے کوائف اس کا فون، ایڈریس اور ای میل وغیرہ، اسی طرح جس کو بھیجا جا رہا ہے ان کے سارے کوائف کے علاوہ بھیجی گئی اشیا کی تمام تر تفصیلات، وزن، کمپنی اور قیمت وغیرہ سب کچھ لکھا جانا ضروری ہے۔
پاکستان پوسٹ کے افسران کے مطابق ’امریکہ نے حال ہی میں اپنے ان قوانین پر 100 فیصد عمل درآمد کروانا شروع کر دیا ہے۔ مثلا اگر ایک ڈاک میں یہ سارا کچھ لکھا ہے لیکن جس پاکستانی شہری کو وہاں ڈاک بھیجی گئی ہے اس کا ٹیلی فون نمبر جو واٹس ایپ پر ہے وہ ابھی پاکستان کا چل رہا ہے اور بھیجنے والے کا وہی نمبر لکھا ہے تو اب وہ ڈاک بھی واپس آ رہی ہے۔ اسی طرح سب سے زیادہ جو مسئلہ ہے وہ ایڈریس خاص طور پر زپ کوڈز کا ہے جو اکثر غلط لکھے جاتے ہیں تو ایسی ساری ڈاک واپس آ رہی ہے۔‘

امریکہ سے واپس آنے والی سینکڑوں ڈاک کی اب دوبارہ چھان پھٹک کی جا رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

حکام کے مطابق پاکستان وزارت کامرس نے امریکی کسٹم سے اس حوالے بات چیت کی ہے اور اب پاکستان میں امریکی سفارتخانے کو بھی رابطہ کر کے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ پاکستان کے پاس ایسا کوئی سسٹم نہیں ہے جس کے تحت ڈاک پر موجود ڈیٹا کو پاکستان کے اندر رہ کر بھیجنے سے پہلے تصدیق کر لیا جائے۔
امریکہ سے واپس آنے والی سینکڑوں ڈاک کی اب دوبارہ چھان پھٹک کی جا رہی ہے اور حکام کا کہنا ہے مسئلے کے مستقل حل کے لیے امریکی کسٹم سے حکومتی سطح پر بات ہونا ضروری ہے کیونکہ ایسی ڈاک بھی واپس آئی جس میں بظاہر کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اور جتنی باریکی سے غلطیاں نکالی گئی ہیں ان کا ازالہ ویسے ہی ممکن نہیں ہے۔
اردو نیوز نے پاکستان پوسٹ کے چار مختلف اعلٰی افسران کے ساتھ علیحدہ علیحدہ بات کی ہی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موضوع پر پاکستان پوسٹ کے ترجمان یا ذمہ داران افسر آن ریکارڈ بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اردو نیوز نے پاکستان پوسٹ کے سپرنٹنڈنٹ پبلک ریلیشنز ندیم خان سے بات کی تو انہوں نے اس حوالے سے کسی بھی بات کا جواب دینے سے صاف انکار کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بین الاقوامی پوسٹ میں آنے والے خلل سے متعلق محکمے کا موقف صرف ڈاک کے ذریعے تحریری طور پر پہنچنے والے سوالوں پر دیا جائے گا۔‘
انہوں نے واٹس ایپ یا ای میل کے ذریعے سوالات لینے سے بھی معذرت کی ہے۔

شیئر: