Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چیئرمین ایف بی آر کی تبدیلی، وزیراعظم کے قریبی افسران ٹیکس چوری روک پائیں گے؟

فروری 2024 کے انتخابات کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ 
سرکاری افسران پر سختی کر کے کام کروانے کے لیے مشہور شہباز شریف بطور ایڈمنسٹریٹر تین مرتبہ پنجاب میں اپنی کارکردگی کا لوہا منوانے کے بعد وفاق سنبھالنے کے بعد قدرے مختلف نظر آئے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق پنجاب میں تین سال تک حکمرانی کرتے ہوئے شہباز شریف 24 گھنٹے متحرک رہنے والے وزیراعلٰی تھے اور سرکاری افسروں کی اکھاڑ پچھاڑ کرنا ان کے لیے معمول کی بات تھی۔
تاہم وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے نہ تو اکھاڑ پچھاڑ کی اور نہ ہی ان کا پرانا طرزِ حکمرانی نظر آیا، تاہم حال ہی میں چیئرمین ایف بی آر امجد زبیر ٹوانہ کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے وزیراعظم نے اُن کی سرزنش کی تو وہ استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ 
دو روز تک ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا گیا، تاہم اب اُن کی جگہ وزیراعظم نے راشد لنگڑیال کو نیا چیئرمین ایف بی آر تعینات کیا ہے۔
راشد لنگڑیال کون ہیں؟
شہباز شریف 2008 میں جب دوسری مرتبہ پنجاب کے وزیراعلٰی بنے تو انہوں نے پہلا ہفتہ پنجاب کی بیوروکریسی کے اعلٰی افسران سے ون آن ون ملاقاتیں کیں اور اُس کے بعد انہیں کلیدی عہدے دیے۔ 
راشد لنگڑیال پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسر ہیں، وہ 2011 میں اس وقت کے پنجاب کے وزیراعلٰی شہباز شریف کی نظروں میں آئے جب انہیں لاہور رِنگ روڑ اتھارٹی کا چیئرمین لگایا گیا۔
جب 2013 میں شہباز شریف تیسری مرتبہ پنجاب کے وزیراعلٰی بنے تو انہوں نے راشد لنگڑیال کو لاہور کا کمشنر تعینات کیا اور وہ دو سال تک اس عہدے پر خدمات انجام دیتے رہے۔
بعدازاں انہیں زراعت کی صورت حال بہتر کرنے کے لیے سیکریٹری محکمہ زراعت لگایا گیا لیکن جلد ہی انہیں وہاں سے ہٹا کر نیشنل پاور پارکس مینجمنٹ کمپنی کا سربراہ بنا دیا گیا۔ 
اس عرصے کے دوران شہباز شریف پنجاب میں بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے۔

ماہرین کے مطابق ’چیئرمین ایف بی آر کسی ایسے شخص کو ہونا چاہیے جو ٹیکس نظام کو جڑ سے سمجھتا ہو‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ وہ دور تھا جب احد چیمہ، محمد جہانزیب اور راشد لنگڑیال جیسے بیوروکریٹس شہباز شریف کی حکومت کا نظم و نسق چلا رہے تھے۔ 
بعد ازاں کئی بیوروکریٹس اس وجہ سے زیرِعتاب بھی آئے، تاہم راشد لنگڑیال کی بچت رہی۔ جب عمران خان وزیراعظم بنے تو انہیں خیبر پختونخوا میں سیکریٹری سیاحت تعینات کر دیا گیا۔ 2022 میں انہیں ایک ماہ کے لیے گلگت بلتستان کا چیف سیکریٹری بھی بنایا گیا۔
موجودہ حکومت میں وزیراعظم شہباز شریف نے انہیں سیکریٹری توانائی کی ذمہ داریاں سونپی تھیں۔ 28 سال سے پاکستان کی ایڈمنسٹریٹو سروس میں ذمہ داریاں ادا کرنے والے راشد لنگڑیال نے بطور اسسٹنٹ کمشنر اپنا زیادہ وقت سندھ میں گزارا۔ انہوں نے 1995 میں پی اے ایس جوائن کی تھی۔
گورنمنٹ کالج لاہور کے فارغ التحصیل اور ہارورڈ کینیڈی سکول سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے والے راشد لنگڑیال کے پاس اس سے قبل ٹیکس اکٹھا کرنے کے معاملات کا بظاہر کوئی تجربہ نہیں ہے۔
تو کیا شہباز شریف اپنے قابلِ اعتماد افسر سے ٹیکس اصلاحات کروا پائیں گے جو کبھی اس شعبے سے وابستہ بھی نہیں رہے؟ 

امجد زبیر ٹوانہ کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے وزیراعظم نے سرزنش کی تو وہ مستعفی ہوگئے (فائل فوٹو: اے پی پی) 

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیس اسلم کہتے ہیں کہ ’چیئرمین ایف بی آر کا عہدہ پاکستان کے اعلٰی ترین عہدوں میں سے ایک ہے اور یہ پوسٹ کسی ایسے شخص کے پاس ہونی چاہیے جو پاکستان کے ٹیکس کے نظام کو جڑ سے سمجھتا ہو۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جس کی بھرتی ہی اس محکمے میں ہوئی ہو وہ سارے قابل افسر ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں باہر سے افسروں کو لانا سُودمند نہیں ہو گا۔‘ ’پہلے امجد زبیر ٹوانہ کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ وہ ایف بی آر کے افسران سے وہ کام نہیں لے سکے یا ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا گیا۔ اب پھر باہر سے افسر لایا گیا ہے۔‘
ڈاکٹر قیس اسلم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’پبلک ایڈمنسٹریشن اور ٹیکس کلیکشن دو الگ الگ شعبے ہیں۔آپ دھانسو افسروں سے تکنیکی کام نہیں لے سکتے۔‘

شیئر: