Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اِس شرارتی بندر کا کیا علاج کیا جائے؟ عامر خاکوانی کا کالم

تحقیق کے مطابق بیشتر پروکاسٹی نیشن کرنے والے کا یہ برین سٹیرنگ وھیل ایک شرارتی بندر کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ (فوٹو: ایکس)
کالم میں نے آپ کو ایک شرارتی بندر اور سنگدل مونسٹر (عفریت) کا قصہ سنانے کے لیے لکھا ہے ۔ اس سے پہلے مگر چند سوالات تاکہ ہم اور آپ ایک ہی پیج پر آ سکیں۔
 کیا آپ کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ ہر اہم کام ایمرجنسی میں کرنا پڑے؟ ڈیڈلائن سر پر آ پہنچے اور پھر بھاگم بھاگ دیوانوں کی طرح وہ کام کیا جائے؟
 بل جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے، بینک گئے تو لمبی لائن لگی ہے۔ ادھر آپ نے کئی کام نمٹانے ہیں، مگر مجبور ہیں کہ فون بینکنگ سیکھی نہیں، ورنہ ایپ سے بل جمع کرا دیتے۔ اب مجبوراً کڑھتے ہوئے انتظارکرنا پڑے گا۔
 بائیک یا گاڑی میں کوئی معمولی سا مسئلہ تھا، آپ ٹالتے رہے اور پھر جب دفتر پہنچنا انتہائی ضروری ہوا تو گاڑی خراب ہو گئی، کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کریں؟
 اسی طرح لیپ ٹاپ کا کوئی تکنیکی ایشو تھا، کسی کو دکھانے کا وقت نہ ملا اور ضرورت کے وقت اچانک ونڈو کرپٹ ہو گئی۔ دانت میں درد تھا، ڈاکٹر کو دکھانے کا سوچا، مگر مصروفیت کے باعث نہ ہو پایا۔ اچانک کسی شام شدید درد اٹھا، ویک اینڈ کی وجہ سے ڈینٹسٹ بھی نہ مل پایا، پین کلر گولی بھی کامیاب نہ ہوئی، رات بھر تڑپتے رہے۔
 زیادہ پریشانی کا سامنا تب کرنا پڑتا ہے جب چھاتی میں درد اٹھتارہا، مگر سوچتے رہنے کے باوجو چیک اپ نہیں کرایا۔ کسی نے کہا کہ گیس ہوگی، گرین ٹی پی لو تو خوش ہوکر قہوے سے وقتی طور پر دل بہلا لیا۔ پھر اچانک کسی دن معاملہ ہاتھ سے نکل گیا، شدید درد نے ہسپتال پہنچایا اور معاملہ سٹنٹ ڈلوانے تک جا پہنچا۔
 اگر آپ طالب علم ہیں تو آپ کا دکھ سمجھ سکتا ہوں۔ اسائنمنٹ، پراجیکٹ، تھیسس وغیرہ کی مصیبت۔ بھلے سے یہ دو مہینے بعد جمع کرانے ہوں، مگر نجانے کیوں یہ ساٹھ دن گزرتے پتہ ہی نہیں چلتا۔ تین دن پہلے احساس ہوتا ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہاتھ ہوگیا۔ پھر دن رات جاگ کر کام کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچتی۔
 اگر آپ کو لکھنے سے دلچسپی ہے، کسی ویب سائٹ وغیرہ کے لئے بلاگ لکھتے ہیں یا اخبار کے لیے کالم دینا پڑتا ہے تو پھر آپ کے دیرینہ مسائل اور پریشانیوں کا خاکسار بخوبی اندازہ کر سکتا ہے۔ یقیناً آپ کا وقت بجلی کی سی تیزی سے گزرتا اور دن گھنٹوں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ قدرت کے کلاک کی لکھنے والوں کے ساتھ دشمنی کیوں ہے؟
 اگر آپ کے ساتھ اوپر بیان کی گئی مختلف سیچوئشنز میں سے کسی ایک سے واسطہ پڑتا ہے تو پھر آپ کے لیے میرے پاس دو خبریں ہیں۔ ایک بری، دوسری اچھی۔
 بری خبر یہ کہ آپ قطعی طور پر مظلوم نہیں ہیں۔ زیادہ چہرے پر خودترسی اور مظلومیت لانے کی کوشش نہ کریں۔ قصور وقت، حالات یا زمانے کا نہیں بلکہ سراسر آپ کا ہے۔
 اچھی خبر جوکہ اتنی زیادہ اچھی بھی نہیں، وہ یہ کہ آپ اور یہ خاکسارایک ہی کشتی کے مسافر ہیں۔
 ہمارے مابین ایک نہایت مضبوط اور اٹوٹ رشتہ ہے۔ بے فکر رہیں جب تک زندگی کا رخ نہ بدلے، یہ رشتہ بھی ایسا ہی رہے گا۔ ہم جیسے لوگوں کے لیے ماہرین نے ایک خاصی منحوس سی اصطلاح  Procrastination وضع کر رکھی ہے، ایسا کرنے والوں کوProcrastinator  کہتے ہیں۔ اردو میں اس کا ترجمہ تاخیر کرنے والے، چیزوں کو زیرالتوا، لٹکائے رکھنے والے بنتا ہے۔
 ’پروکراسٹی نیشن‘ پر ریسرچ سے پہلے مجھے ہمیشہ حیرت ہوتی کہ میرے اہداف بروقت پورے کیوں نہیں ہوتے؟ ان لوگوں کو رشک کی نظر سے دیکھتا جوپنجابی محاورے کے مطابق ہمیشہ ٹھنڈ رکھتے، سکون سے بروقت اپنا کام کر لیتے۔
 ادھر ہمارا یہ حال کہ قریبی دوستوں کو ازخود بتا رکھا ہے کہ جہاں کہیں ضروری بلانا ہو، ہمیں ایک گھنٹہ پہلے کا وقت دینا اور پھر اس پر اصرار کرنا کہ اسی وقت پہنچنا لازم ہے۔ ایسی صورت میں ہم بروقت پہنچ سکیں گے۔ حال یہ ہے کہ کسی کو ملنے کا وقت دے بیٹھیں تو پھر تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں اسی میں صرف ہوتی ہیں کہ کسی طرح وقت پر پہنچ سکیں۔ اسی وجہ سے ہمارا کوئی فیس بک فرینڈ یا قاری ملنے کی بات کرے تو دل دہل جاتا، پسینے چھوٹنے لگتے ہیں۔

 بائیک یا گاڑی میں کوئی معمولی سا مسئلہ تھا، آپ ٹالتے رہے اور پھر جب دفتر پہنچنا انتہائی ضروری ہوا تو گاڑی خراب ہوگئی۔ (گیٹی امیجز)

 کبھی یہ راز بھی نہیں کھل پایا کہ کالم آخری لمحات (The Eleventh Hour ) ہی میں کیوں لکھا جاتا ہے ، حالانکہ کئی گھنٹے پہلے بڑے ذوق شوق سے کمپیوٹر کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں تاکہ کالم لکھا جائے۔ مجھے ان لوگوں پر ہمیشہ رشک آیا جو ایک دن پہلے کالم اخبار کے دفتر بھجوا دیتے ہیں یا جنہوں نے ایک دو کالم ایڈوانس لکھ رکھے ہوتے ہیں کہ ایمرجنسی میں کام آئیں۔
 خود احتسابی پر ہم یقین رکھتے ہیں اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے سے کبھی نہیں ہچکچائے۔ یہ ہم مانتے ہیں کہ جب کالم لکھنے کے لئے ’ان پیج‘ کی نئی فائل بنا لی، سرخی بھی لکھ ڈالی، ایک آدھ سطر سے آغاز بھی ہوگیا۔ پھر اچانک ہی گوگل سرچ کرنے، کسی نیوز ویب سائیٹ پر آخری نظر ڈالنے یا فیس بک نوٹی فکیشن کو دیکھ کر جوابی کمنٹ کرنے کا خیال آگیا۔
 اب اتنا حق تو ہمیں ملنا چاہیے کہ لکھنے سے پہلے سوشل میڈیا کے جھگڑے نمٹا لیں۔ فیس بک پر جن لوگوں نے مینشن کیا، ان کو جواب دیا جائے اور پھر واٹس ایپ چیک کر کے جن آٹھ دس گروپوں کا حصہ ہیں، وہاں تازہ ترین کمنٹس اور شیئر شدہ کالم وغیرہ دیکھ لیے جائیں۔
اب ظاہر ہے ان گروپوں میں لگائی گئی ایک آدھ ویڈیو تو بندہ دیکھ ہی لیتا ہے، اس کا کیا ذکر کرنا۔ مصیبت یہ ہے کہ ان چھوٹے چھوٹے، معمولی سے کاموں کو نمٹانے کے بعد جب کالم کی طرف لوٹتے ہیں تو کمپیوٹر کی گھڑی دو تین گھنٹے گزرجانے کی خبر سناتی ہے۔
 سچ پوچھیں تویہ ہمیں قدرت کی ناانصافی محسوس ہوتی ہے۔ ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ وقت اتنی تیزی سے کیسے بیت جاتا ہے؟ یہ راز بھی ہمیں گنجلک لگتا تھا کہ یا تو کئی گھنٹوں سے کالم لکھنے میں لگے ہیں اور یا پھر اچانک ہی کسی جناتی قوت کے تابع بمشکل پینتالیس پچاس منٹ کی تیز رفتار ٹائپنگ سے کالم لکھ کر بھجوا دیا۔ یہ سب باتیں ہم سوچتے اور اپنی درویشانہ طبیعت کے تحت اس مسئلے پر کسی فارغ وقت میں غور فرمانے کا تہیہ کرتے رہتے۔
 ایک روز یہ مسئلہ حل ہوگیا جب ٹیڈ ٹاک(TED Talk)  میں اسی موضوع پر ایک ماہر کا لیکچر سنا۔ اٹھارہ منٹ کے لیکچر میں موصوف نے ہمارے تمام مفروضے تہس نہس کر دیے۔ سمجھ میں آگیا کہ چیزیں التوا میں ڈالنے والا معاملہ ایک طرز زندگی ہے۔
اسے یکسر بدلنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح وزن صرف ڈائٹنگ، گولیاں لینے یا چربی نکالنے کے آپریشن سے کم نہیں ہوتا، جب تک لائف سٹائل نہ تبدیل کیا جائے۔ یہی معاملہ اپنے ضروری کاموں کو التوا میں ڈالنے کا ہے۔
 اس ماہر کے مطابق پروکاسٹی نیٹر (Procrastinator)پیدا نہیں ہوتے، بن جاتے ہیں۔ ظالم نے نقشہ بنا کر بتایا کہ انسانی دماغ میں ایک طرح کا گاڑیوں کی طرح کا سٹیرنگ ہے، اسے جس سمت میں گھماﺅ انسان اسی طرف چل پڑے گا۔
تحقیق کے مطابق بیشتر پروکاسٹی نیشن کرنے والے کا یہ برین سٹیرنگ وھیل ایک شرارتی بندر کے ہاتھ میں رہتا ہے، جس کی واحد دلچسپی تفریح اور وقت گزارنا ہے۔ وہ کام پر فوکس کے بجائے ادھر ادھر توجہ کر دیتا ہے، وقت گزرنے کا اندازہ نہیں ہوپاتا، حتیٰ کہ ڈیڈ لائن کرائسس سر پر آپہنچے۔

وزن صرف ڈائٹنگ، گولیاں لینے یا چربی نکالنے کے آپریشن سے کم نہیں ہوتا، جب تک لائف سٹائل نہ تبدیل کیا جائے۔ (گیٹی امیجز)

 لیکچر میں ایک اہم بات یہ بتائی کہ اسی ذہن میں ایک ڈیڈ لائن عفریت یا مونسٹر بھی موجود ہے۔ یہ صرف اسی وقت جاگتا ہے جب کسی ڈیڈ لائن سے واسطہ پڑے۔ ادھر وہ شرارتی بندر صرف اسی عفریت سے ڈرتا ہے، اس کے جاگنے پر غائب ہوجاتا ہے۔ یوں تمام تر دماغی قوتیں اس ڈیڈلائن کے چکر میں مرکوز ہوجاتی ہیں اورجیسے تیسے کام مکمل ہوجاتا ہے۔
 پروکاسٹی نیشن ایکسپرٹ نے بتایا کہ دو مسائل پھر بھی باقی رہتے ہیں۔ ایک تو جلدی میں کیا گیا کام زیادہ معیاری نہیں ہوتا، کبھی کم کبھی زیادہ نقائص رہ جاتے ہیں۔
دوسرا کہ جن معاملات میں ڈیڈ لائن کا پریشر نہیں، وہاں اسی شرارتی بندر کا راج رہتا ہے اور پھر مکمل بیڑاغرق ہونے میں کسر نہیں رہتی۔
 خطرناک بات یہ ہے کہ اسائنمنٹ، تھیسس، پراجیکٹ، یوٹیلیٹی بلز وغیرہ کے لیے تو ڈیڈلائن ہے، لیکن صحت کے معاملات، کیریئر کے دیگر ایشوز پر ڈیڈلائن کا پریشر نہیں تو وہاں کارکردگی مایوس کن رہتی ہے۔
فیملی ریلیشن، دوستوں سے تعلقات، قرضوں کی ادائیگی اور اسی طرح کے بہت سے اہم ترین معاملات ہیں، وہاں پر ہمیں ڈیڈ لائن عفریت کی مدد حاصل نہیں ہوپاتی۔ اس لیے ڈیڈلائن پر کام مکمل کر لینا خوشی یا آسودگی کی علامت نہیں، اصل کام اپنی پروکراسٹی نیشن کی عادت کو بدلنا ہے۔
 یہاں پر آکر وہی بات جو ہمارے اکثر موٹیویشنل سپیکرز کہتے ہیں۔ یعنی پختہ عزم اور قوت ارادی سے یہ مشکل کام آسان ہوسکتا ہے۔ میری دلچسپی اور کنسرن البتہ یہ ہے کہ کسی طرح ان اقوال زریں پر عمل کیے بغیر اِس شرارتی بندرسے کچھ اٹی سٹی لگا لی جائے۔
ایسی ڈیل کر لی جائے کہ وہ عفریت کے جاگے بغیر ہی ہمارے کچھ معاملات آسان کر دے۔ ہم ڈیڈ لائن سینڈروم سے باہر نکل آئیں۔ میں تو اس کم بخت بندر کا ایڈریس نہیں ڈھونڈ پایا۔ شائد آپ تلاش کر سکیں۔  

شیئر: