دوسروں کی پرائیویسی میں دخل نہ دیں، یہی بہتر ہے، عامر خاکوانی کا کالم
دوسروں کی پرائیویسی میں دخل نہ دیں، یہی بہتر ہے، عامر خاکوانی کا کالم
جمعرات 18 جولائی 2024 5:30
آئے روز کوئی نہ کوئی دکان دار، دفتر کا چپڑاسی یا گیٹ کیپر اپنا قیمتی مشورہ ضرور دیتا ہے۔ فائل فوٹو
پتہ نہیں آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا ہے یا نہیں، میرے ساتھ البتہ دو تین بار یہ ہو چکا ہے کہ جیسے ہی اے ٹی ایم کیبن میں ایک دو منٹ زیادہ لگے، باہر سے لوگوں نے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔
ایک بار میں اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے گیا، بعض اوقات بینک لنک ڈاﺅن ہونے یا کسی اور وجہ سے مشین سست چلتی ہے اور کیش باہر آنے میں دو تین منٹ لگ جاتے ہیں۔ میں انتظار کر رہا تھا کہ باہر سے کسی نے تیزتیز دروازہ بجایا۔ میں نے مڑ کر دیکھا ،پھر کوفت سے مشین کی طرف متوجہ ہوا جو سست چل رہی تھی۔ ایک آدھ منٹ مزید لگ گیا۔ اس دوران دو بار دستک ہوچکی تھی۔ خیر کیش باہر آ گیا تھا، میں نے پیسے جیب میں ڈالے اور باہر نکلا۔ دیکھا کہ ایک پڑھی لکھی ماڈرن سی لڑکی نخوت سے منہ بنائے کھڑی تھی۔
میں نے اس کی جانب دیکھا اور مایوسانہ شکل بنا کر کہا، ’یہ اے ٹی ایم والے بالکل ہی نالائق ہیں، نہایت بری چوائس ہے ان کی۔‘ اس نے حیرت سے بات سنی اور بولی ’جی ؟‘ میں نے کہا، ’اندر بیکار سے گانے لگے ہیں، ایک بھی مزے کا نہیں تھا۔‘ وہ بے چاری چکرا کر بولی،’گانے! کیسے گانے؟‘ میں نے کہا، ’وہی گانے جو میں اندر کھڑا ہو کر سن رہا تھا، سب کے سب بیکار نکلے۔ ایسے میرا وقت ضائع ہوا۔‘
چند لمحوں تک تو اس کو سمجھ نہیں آئی، پھر جیسے ہی اسے طنز کا پتہ چلا، جھنجھلا کر بولی، ’آپ اندر اتنی دیر سے تھے۔‘ میں نے عرض کیا، ’میڈم اے ٹی ایم میں بندہ کیش ہی نکلوانے جاتا ہے، جب مشین سے نکلے گا تب ہی باہر آئے گا ، وہاں کھڑا گانے تو کوئی نہیں سنتا۔‘
خیر اس عفیفہ کی آنکھوں سے شعلے تو برسنے لگے، مگرہم اتنے بے وقوف تو نہیں تھے کہ اس کے کسی جلے بھنے جواب کا انتظار کرتے، تیزی سے مڑے اور چلتے بنے۔
تو بھائی لوگو اس سے ہم نے اپنا اصول نمبر ون اخذ کیا ہے: یاد رکھو کہ اے ٹی ایم میں لوگ کیش نکلوانے ہی جاتے ہیں اور جب تک مشین سے پیسے نہیں نکلتے، وہ کیسے باہر آئیں گے؟ جس قدر مرضی دروازہ بجاتے رہیں، کوئی فرق نہیں پڑنا۔ چند منٹ انتظارکرنا سیکھ لیں یا پھر کوئی اور اے ٹی ایم ڈھونڈیں۔
اسی طرح کی بے صبری اور عجلت والا معاملہ سگنل پر اکثر پیش آتا ہے۔ سگنل سبز ہوتے ہی گاڑیاں چل پڑتی ہیں، مگر بعض اوقات آگے کوئی سست رفتار گاڑی یا رکشہ وغیرہ ہوتا ہے تو ظاہر ہے نکلنے میں چند لمحے لگ جائیں گے۔ اتنی دیر میں مسلسل ہارن بجنے لگتے ہیں۔ اس پر شدید کوفت ہوتی ہے۔ میری اہلیہ ساتھ ہوں تو اکثر چڑ کر انہیں کہتا ہوں کہ نجانے ان ہارن بجانے والے بے وقوفوں کو کیوں لگ رہا ہے کہ اگلی گاڑی والا اس سگنل پر سونے کے لیے آیا ہے؟ ہر ایک کو جلدی ہوتی ہے، اگر چند لمحے کسی کو رکنا پڑا ہے تو کوئی وجہ ہوگی۔
تو ہمارا اصول نمبر دو: اشارہ کھلنے پر اگر اگلی گاڑیاں سست روی سے آگے بڑھ رہی ہیں تو یقینی طور پر کوئی وجہ ہوگی۔ بلاوجہ ہارن مت بجائیے۔ اس سے آپ کا کام مزید مشکل ہو جائے گا۔
چند سال قبل میں ایک میڈیا ہاﺅس میں کام کرتا تھا، وہاں اخبار کا دفتر چوتھی منزل پر تھا، لفٹ کے ذریعے جانا پڑتا۔ ٹی وی کے دفاتردوسری اور تیسری منزل پر ہوتے تو اکثر لوگ وہاں اترتے رہتے۔ لفٹ کا دروازہ چند سکینڈ بعد ازخود بند ہوجاتا ہے، مگر ہمیشہ یہی دیکھا کہ کوئی نہ کوئی تیزی سے لفٹ کا بٹن دبا کر دروازہ بند کرنے کی کوشش کرتا۔ دفتر کے ایک ساتھی ایک روز کہنے لگے کہ میں نے باقاعدہ گھڑی میں دیکھ کر کیلکولیٹ کیا ہے کہ صرف دس سکینڈز میں یہ دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اگر بند کرنے کے لیے بٹن دبائیں یا دباتے رہیں تب بھی دس سکینڈز ہی لگنے ہیں۔ اس کے باوجود اتنا انتظار بھی لوگوں سے نہیں ہوتا۔ پھر انہوں نے ہنس کر کہا، یہ اور بات کہ باہر نکل کر کئی منٹ وہیں کھڑے گپیں ہانکتے رہیں گے۔
یوں میرا اصول نمبر تین بنا کہ غیر ضروری عجلت بے وقوفانہ بات ہے۔
چند سال پہلے جب میرے پاس گاڑی نہیں تھی، تب موٹرسائیکل چلاتا تھا۔ عام رواج کے مطابق وہ بائیک لی تھی جو کم پٹرول استعمال کرتی تھی۔ اب اتفاق سے ہم تب بھی لمبے چوڑے تھے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی دکان دار، دفتر کا چپڑاسی یا گیٹ کیپر اپنا قیمتی مشورہ ضرور دیتا سر جی وڈا جیا موٹرسائیکل لو یعنی ون ٹوفائیو(125)۔ بندہ پوچھے کہ میں نے اپنے بجٹ کے مطابق کام چلانا ہے یا تمہاری مانوں؟بعض ایسے ستم ظریف کہ مزے سے کہہ دیتے پنچ ست لکھ دی گڈی آجانی اے ، لے لو۔ یہ انیس 20 سال پہلے کی بات ہے جب صحافیوں کی بمشکل آٹھ دس ہزار ماہانہ تنخواہ ہوتی۔ اس مشورے پر بڑے جھنجھلاتے مگر پھر خاموش ہو جاتے۔
چند سال گزرے، ایک پرانی سی مہران کار مل گئی، اس پر ڈرائیونگ بھی سیکھی اور جیسے تیسے اس سے کام چلاتے رہے۔ تب یہ مشورے ملنے لگے کہ یہ گاڑی بیچ کر بڑی گاڑی لیں، سٹی لے لیں۔ سن سن کر کان پک گئے۔ ایک بار رات کو گھر جاتے ہوئے اپنی گلی کی نکڑ پر موجود دکان سے انڈے ڈبل روٹی لینے رکا۔ اس نے چیزیں دیں، بقایا واپس کیا، ایک تنقیدی نظر ہماری بھولی بھالی معصوم سی تھکی ہوئی گاڑی پر ڈالی اور مزے سے بولا، سر جی سٹی گاڑی لے لیں، آپ کی پرسنالیٹی پر سوٹ کرے گی۔
دن بھر کا تھکا ہارا تھا، میرا بھی ناریل چٹخ گیا۔ اپنے لہجے پر قابو پاتے ہوئے اسے کہا، ’یار اچھا ہو گیا کہ آج تم نے یہ بات کہہ دی، مجھے ڈر تھا کہ تم اجازت نہیں دو گے، اب اجازت مل گئی توکل ہی بڑی گاڑی کا پتہ کرتا ہوں۔‘ وہ پہلے تو بھونچکا رہ گیا۔ پھر اسے سمجھ آئی تو معذرت کرنے لگا۔ اسے سمجھایا کہ بھائی چھوٹی گاڑی ہونے سے تکلیف، بے آرامی مجھے ہوتی ہے، تمہیں نہیں۔ جس بڑی گاڑی کا تم کہہ رہے ہو، اس کے لیے بڑی رقم چاہیے۔ جب میرے پاس ہوگی، ضرور لوں گا۔ تم کیوں چاہتے ہو کہ میرا بھرم ختم ہو اور تمہارے سامنے اپنی کم مائیگی کا اعتراف کروں۔
تو میرا اصول نمبر چار یہ ہے کہ کبھی اس طرح کا مشورہ کسی کو نہ دیں، اپنے حالات وہ ہم سے بہتر جانتا ہے۔ کسی کے پاس گاڑی ہے یا نہیں، چھوٹی ہے یا بڑی، یہ اس کا اپنا مسئلہ ہے۔ دوسرے کو کیا ضرورت ہے کہ بن مانگے مشورہ دے۔
ہمارے ہاں یہ عمومی مسئلہ ہے کہ دوسروں کو نہ صرف بغیر پوچھے مشورہ داغ دیتے ہیں بلکہ اس پر پھر اصرار بھی ہوتا ہے کہ تم مان کیوں نہیں رہے۔ بندہ خدا، اس کی اپنی زندگی ہے، اپنی مرضی سے گزارنے دو۔ جب وہ مشورہ مانگے تب ضرور دو، مگرمفت میں ایسے مشورے کی قدر بھی نہیں ہوتی اور دوسرا آدمی بھی چڑ جاتا ہے۔ ہم میں سے بہت سوں کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ خواہ مخواہ کا ناصح بن کر لوگوں نے مشورہ دینا شروع کر دیا۔ جن کا ہم سے کچھ بھی لینا دینا نہیں۔ کسی کا وزن زیادہ ہو، بال اڑنے لگیں، ہیر سٹائل مختلف کر لے، مونچھیں رکھ لے یا کلین شیو کرالے۔ لوگ اپنے تبصرے اور مفت مشورے دینے میں ایک لمحے کی دیر نہیں کرتے۔ شاید ان کے پاس وقت بہت زیادہ ہے اور یہ سمجھ نہیں آتا کہ اسے کس طرح گزارا جائے۔ ورنہ کامن سینس کی بات ہے کہ اپنا چہرہ ہر آدمی دن میں تین چار بار تو آئینے میں دیکھتا ہی ہے، وہ اپنے بارے میں زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اس پر کیا اچھا لگ رہا ہے؟
یہ بھی اکثر دیکھا گیا کہ کسی نے فیس بک پر اپنی پروفائل تصویر تبدیل کی۔ اب وہ بیچارہ اپنی کسی تازہ تصویر کو دوستوں سے شیئر کرنا چاہ رہا ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ دوست کی خوشی میں خوش ہوں، اگر کچھ پسند نہیں تو چلو خاموش رہ جائیں، اچھا لگا تو اظہار کر دیں۔ اس کے بجائے انواع واقسام کے تبصرے شروع ہوجائیں گے۔ کسی کو چہرے پر غصہ نظر آئے گا تو کوئی میز کی بے ترتیبی کی طرف اشارہ کرے گا اورایسے کئی لوگ ہوں گے جو وزن کم کرنے کا مشورہ جڑ دیں گے۔ دلیل یہ ہوتی ہے کہ ایسا ہم نے اپنی محبت اور کیئر کی وجہ سے کیا۔
پیارے پڑھنے والو، یہ اصول یاد رکھو کہ انسان کا سب سے بڑا ہمدرد وہ خود ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس کے لائف پارٹنر یا بہن بھائیوں کو یہ حق دیا جا سکتا ہے۔ ہر ایک کو یہ ذمے داری نہیں سنبھالنی چاہیے۔
اس لئے ہمارا پانچواں اصول یہ ہے: اگر کوئی مشورہ مانگے تو ضرور دیا جائے، ورنہ خاموش رہیں۔ کچھ معاملات ہر آدمی کی پرائیویٹ لائف سے متعلق ہیں۔ وہ کیا کھاتا پیتا، بال کس طرح بناتا، کون سے کپڑے پہنتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کی پرائیویٹ لائف کا احترام اور اسے سپیس دینی چاہیے۔ اگر ہم دوسروں کی پرائیویسی میں دخل نہ دیں، اپنے کام سے کام رکھیں تو ہمارے کئی سماجی مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔