Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں سٹارلنک اور دیگر کمپنیوں کو کام کرنے کے لیے لائسنس کیوں نہیں مل سکا؟

آئی ٹی کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں عالمی کمپنیوں کو طویل اور پیچیدہ طریقہ کار سے گزرنا پڑتا ہے (فوٹو: تیک ورلڈ)
سٹارلنک اور دیگر سیٹلائٹ براڈ بینڈ کمپنیاں پاکستان میں اپنی سروسز شروع کرنے کے لیے نمایاں کوشش کر رہی ہیں، تاہم ابھی تک ان کمپنیوں نے لائسنس حاصل کرنے کے تقاضوں کی تعمیل نہیں کی۔
اُردو نیوز کو دستیاب دستاویزات کے مطابق پاکستان میں آپریٹ کرنے کی خواہش مند کسی کمپنی یا ٹیلی کام سروسز فراہم کنندگان کے لیے پاکستان کے متعلقہ انضباطی اداروں یعنی پی ٹی اے، ایف اے بی، ایس پی ڈی وغیرہ سے مطلوبہ رجسٹریشن، لائسنسنگ اور اجازت ناموں کے حصول کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
اس وقت قومی سپیس پالیسی 2023 کے تحت سٹار لنک اور دیگر سیٹلائٹ براڈ بینڈ کمپنیاں ضروری قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کر رہی ہیں جن کی تکمیل کے بعد ان کمپنیوں کو پاکستان میں اپنی خدمات کے لیے لائنسنس جاری ہو سکیں گے۔
آئی ٹی کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اپنی سروسز شروع کرنے سے قبل عالمی کمپنیوں کو مختلف اداروں کے طویل اور پیچیدہ طریقہ کار سے گزرنا پڑتا ہے جو غیر ملکی کمپنیوں کی عدم دلچسپی کی وجہ بنتا ہے۔ اُنہوں نے حکومت کو ریگولیٹری فریم ورک کو سہل بنانے کا مشورہ دیا ہے۔
سٹار لنک کی پاکستان میں اپنی سروسز شروع کرنے کے لیے درخواست 
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ سیٹلائٹ انٹرنیٹ کمپنی سٹار لنک نے پاکستان میں ایل ڈی آئی لائسنس کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ اس حوالے سے مذکورہ کمپنی کی جانب سے خاصی دلچسپی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ تاہم ابھی تک کمپنی کی جانب سے لائسنس کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا جا سکا۔
سٹارلنک کے علاؤہ دیگر بین الاقوامی سیٹلائٹ براڈ بینڈ کمپنیاں بھی ہیں جنہوں نے پاکستان میں کام کرنے کی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ ایسی کمپنیاں صارفین کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ٹیکنالوجیز پیش کر سکتی ہیں جو ٹیکنیکل، باضابطگی اور سکیورٹی کے پہلوؤں کی تعمیل سے مشروط ہے۔
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مطابق سٹار لنک نے ’سٹار لنک انٹرنیٹ سروسز پاکستان لمیٹیڈ‘ کے طور پر دسمبر 2021 میں ایس ای سی پی میں رجسٹریشن کروائی تھی۔ بعد ازاں براڈ بینڈ سروسز کے لیے 24 فروری 2024 کو پی ٹی اے کو ایل ڈی آئی لائسنس کے لیے درخواست دی گئی۔ اسی دوران وہ کمرشل آپریشنز شروع کرنے کے لیے مقامی کمپنیوں/سروس پرووائیڈر کے ساتھ کمرشل گفت و شنید میں بھی رہی ہے۔
قومی سپیس پالیسی سے قبل کے ضوابط پر سٹار لنک کے ساتھ اتفاق رائے نہیں ہو سکا تھا: وزارت آئی ٹی 

دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ 2021 کے بعد سے سٹار لنک کے ساتھ پاکستان میں کام شروع کرنے کے معاملے پر بات چیت ہوتی رہی ہے (فوٹو اے ایف پی)

وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ 2021 کے بعد سے سٹار لنک کے ساتھ پاکستان میں کام شروع کرنے کے معاملے پر بات چیت ہوتی رہی ہے۔ اس معاملے پر وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے متعلقہ کمپنیوں اور اداروں سے تجاویز بھی طلب کی تھیں۔ ایف اے بی، ایس ڈی پی، سپارکو پاک اور دیگر قومی ایجنسیوں نے سٹار لنک کے پاکستان میں کام کرنے کے معاملے کا مفصل تجزیہ بھی کیا۔
کمرشل کمپنیوں سے مشاورت اور ریگولیٹری اداروں کی تجاویز سٹار لنک کے سامنے رکھی گئیں، تاہم اُن کے متعلقہ عہدیداران کی جانب سے رضامندی کا اظہار نہیں کیا گیا۔
اس معاملے کے بعد اب دوبارہ سٹارلنک کمپنی قومی سپیس پالیسی 2023 کے تحت سٹار لنک اور دیگر سیٹلائٹ براڈ بینڈ کمپنیاں ضروری قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کر رہی ہیں جن کی تکمیل کے بعد ان کمپنیوں کو پاکستان میں اپنی خدمات کے لیے لائسنس جاری ہو سکیں گے۔
ٹیلی کام سروسز کی فراہمی پر کام کرنے والے ماہر آئی ٹی امور روحان ذکی کے خیال میں ’سٹارلنک جیسی بڑی سیٹلائٹ انٹرنیٹ کمپنیاں پاکستان میں کام تو شروع کرنا چاہتی ہیں تاہم سرکاری ادارے اور نجی کمرشل کمپنیاں اس کے حق میں نہیں ہیں۔‘
اُنہوں نے اُردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’ہمارے ملک میں ایسی پالیسیاں بنا دی گئی ہیں جن کو پڑھ کر غیر ملکی کمپنیاں بھاگ جاتی ہیں۔ غیر ضروری ڈیٹا مانیٹرنگ یا ٹیکسز کے معاملات پر عالمی کمپنیوں کے ساتھ اتفاق رائے نہیں ہوتا۔‘
فائر وال جیسے اقدامات پر عالمی کمپنیوں کے تحفظات 

تنویر نانڈلہ نے سٹارلنک جیسی بڑی سیٹلائٹ کمپنیوں کے پاکستان میں کام شروع کرنے کو وقت کی ضرورت قرار دیا ہے (فوٹو سٹار لنک)

روحان ذکی نے پاکستان میں سوشل میڈیا ایپس اور انٹرنیٹ کی بندش یا سست روی کے پہلوؤں پر اپنے تبصرے میں کہا کہ پاکستان میں حکومتی ادارے ایسی کمپنیوں کی غیر ضروری نگرانی کرنے پر یقین رکھتے ہیں فائر وال یا کسی دوسرے ذریعے سے انٹرنیٹ کو بند کرنے یا سوشل میڈیا ایپس کو سلو ڈاؤن کرنے جیسے اقدامات کو بڑی غیر ملکی کمپنیاں قبول نہیں کرتیں اور پھر یوں پاکستان میں جدید ٹیلی کام سروسز کی دستیابی مشکل بن جاتی ہے۔
دوسری جانب ڈیجیٹل رائٹس ایکٹوسٹ تنویر نانڈلہ بھی یہی موقف رکھتے ہیں کہ ’سٹارلنک یا دیگر سیٹیلائٹ کمپنیوں کی پاکستان میں خدمات شروع نہ ہونے کی بنیادی وجہ ہمارا پیچیدہ ریگولیٹری فریم ورک ہے۔‘
اُنہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان میں اداروں کو ہمیشہ یہ خدشہ رہتا ہے کہ کوئی نئی آنے والی کمپنی رائج کیے گئے اُصولوں پر عمل پیرا ہو گی یا نہیں۔ چونکہ سیٹلائٹ انٹرنیٹ پر قدغن لگانا مشکل کام ہوتا ہے اس لیے حکومت اس کا لائنسنس دینے سے قبل تمام ممکنات کا سدباب چاہتی ہے۔‘
’ماضی میں سٹارلنک نے یہ فریم ورک ماننے سے انکار کر دیا تھا تاہم اب قومی سپیس پالیسی 2023 کے مطابق سٹار لنک دوبارہ لائسنس کے حصول کے لیے تقاضوں کو پورا کر رہی ہے۔‘
تنویر نانڈلہ نے سٹارلنک جیسی بڑی سیٹلائٹ کمپنیوں کے پاکستان میں کام شروع کرنے کو وقت کی ضرورت قرار دیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا ’پاکستان ہمیشہ ٹیکنالوجی کو اپنانے میں تاخیر سے کام لیتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم اس شعبے میں دنیا سے بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔ اگر ایسی کمپنیوں کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دی جائے تو اس سے نہ صرف عوام کو جدید ٹیلی کام سہولیات میسر ہوں گی بلکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ بھی پروان چڑھے گا۔‘

شیئر: