Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں بی گریڈ سولر پینلز کا قیمتیں گرانے میں کیا کردار ہے؟

شہریوں کا کہنا ہے کہ ’بی گریڈ پینلز کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان سمیت دنیا بھر میں سولر پینلز کی قیمتیں تاریخ کی کم ترین سطح پر ہیں۔ ایک سولر پینل کی لاگت سے بننے والی بجلی 25 سینٹ سے 10 سینٹ پر آ چکی ہے جس کی وجہ سے اس کاروبار سے منسلک افراد جنہوں نے مہنگے پینلز کا سٹاک کر رکھا تھا اب نقصان پر بیچنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان میں شمسی توانائی سے منسلک تنظیم پاکستان سولر ایسوسی ایشن (پی ایس اے) نے اس حوالے سے حکومت سے کارروائی کرنے اور غیرمعیاری پینلز کی روک تھام کے لیے قوانین سخت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں بی گریڈ سولر پینلز کی بھرمار ہے جس سے نہ صرف کاروباری افراد متاثر ہو رہے ہیں بلکہ عوام کو بھی غیرمعیاری سولر پینلز مل رہے ہیں۔ 
بی گریڈ سولر پینلز ہیں کیا؟
لاہور کے رہائشی محمد عرفان نے حال ہی میں پانچ کلو واٹ کا ایک سسٹم لگوایا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ ایک سال میں بجلی کی پیداوار میں فرق پڑ گیا ہے۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے تو ہال روڈ سے پینلز لیے تھے اور انہوں نے مجھے 12 سال کی گارنٹی بھی دی تھی، تاہم ایک سال میں دس سے 12 کلو واٹ پروڈکشن کم ہو چکی ہے۔‘
محمد عرفان کا کہنا ہے کہ ’اب مجھے نہیں پتا کہ یہ کون سے گریڈ کی پلیٹس ہیں کیونکہ مارکیٹ میں اتنی بھرمار ہے کہ کچھ پتا نہیں چلتا۔‘
ایک اور شہری اجمل نے بھی 10 کلو واٹ کا ایک سسٹم گھر پر لگایا اور ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ کچھ وقت سے بجلی کی پیداوار میں کمی آئی ہے، اگرچہ یہ کمی معمولی ہے۔ 
انہوں نے مزید کہا کہ ’مجھے اب صرف یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگر پیداوار کم ہونے کا سلسلہ جاری رہا تو پھر میرے لیے یہ مسئلہ بن جائے گا۔‘ 
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اُن کے پینلز اے گریڈ کیٹیگری کے ہیں یا بی گریڈ کے تو ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مجھے کچھ علم نہیں ہے۔
پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے چیئرمین عامر چوہدری جنہوں نے غیرمعیاری پینلز سے متعلق ایک مہم شروع کر رکھی ہے کا کہنا ہے کہ ’بی گریڈ سولر پینلز کی وجہ سے پہلے سے غیر مستحکم مارکیٹ کو مزید نقصان ہو رہا ہے۔‘

پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے مطابق ’ملک میں سالانہ 20 سے 25 فیصد بی گریڈ سولر پینلز آرہے ہیں‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

’یہ پینلز مینوفیکچررز کا وہ ڈیفیکٹڈ مال ہے جو وہ تھرڈ پارٹی کے ذریعے بیچ رہے ہیں۔ کسی بھی بڑی کمپنی کی پانچ سے 10 فیصد پیداوار ایسی ہوتی ہے جس میں کوئی نہ کوئی کوالٹی نقص ہوتا ہے۔ پاکستان جیسی غریب مارکیٹ میں ایسے پینلز بیچنا نہایت آسان ہے۔‘
پاکستان میں سولر پینلز کی درآمد پر حکومت کی جانب سے چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی موجود ہے، تاہم ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ جس ایس آر او کے ذریعے بنیادی کوالٹی کنٹرول کا طریقہ کار وضع کیا گیا تھا، اس میں اب ترمیم کی ضرورت ہے۔
پی ایس اے کی میڈیا کمیٹی کے رکن وقاص موسیٰ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے سفارشات حکومت کو بھی بھیجی گئی ہیں، ’ہم نے تجویز کیا ہے کہ درآمد کے وقت متعلقہ کمپنیوں کی تصدیق شدہ دستاویزات کا ہونا لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔‘
’بی گریڈ پینلز کے ساتھ کمپنی کی گارنٹی نہیں ہوتی جو صارفین کے لیے سب سے نقصان دہ بات ہے۔ ہم یہی چاہتے ہیں عوام میں شعور پیدا ہو اور حکومت بھی اس بارے میں اقدامات کرے جس سے قیمتوں میں بھی استحکام متوقع ہے۔‘
پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں سالانہ 20 سے 25 فیصد بی گریڈ سولر پینلز آرہے ہیں۔

پاکستان سولر ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ملک میں بی گریڈ سولر پینلز کی بھرمار ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بی گریڈ پینلز کتنا بڑا مسئلہ ہے؟
دوسری طرف شمسی توانائی سے منسلک ماہرین بی گریڈ پینلز کو اتنا بڑا مسئلہ قرار نہیں دیتے۔ شمسی توانائی کی انڈسٹری میں تکنیکی معاونت فراہم کرنے والے یاسر صدیقی کہتے ہیں کہ ’مارکیٹ میں تین طرح کے پینلز دستیاب ہوتے ہیں۔‘
’اے گریڈ، بی گریڈ اور سی گریڈ، ان میں سب سے زیادہ تعداد اے گریڈ کی ہوتی ہے۔ بی گریڈ پینلز وہ کیٹیگری ہے جو سخت ترین کوالٹی چیک پر پورا نہیں اُترتی۔‘
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر شیشے کی پلیٹ پر ہیسٹنگ کے دوران کوئی معمولی فرق رہ گیا ہے تو وہ بی گریڈ میں آجائے گا۔‘
یاسر صدیقی کا کہنا ہے کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے جُوتے یا کپڑے فیکٹری لیفٹ اوور میں آتے ہیں اور کمپنی کے اپنے آؤٹ لیٹ پر قدرے سستے بیچ دیے جاتے ہیں۔ 
’تاہم ایسا نہیں ہے کہ وہ بالکل ناقص ہوتے ہیں اور ان میں نصب اگر ایک سیل بھی کام نہ کرے تو پورا پینل کام نہیں کرے گا۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’سولر پینل یا تو ٹھیک ہوتا ہے یا بالکل بھی ٹھیک نہیں ہوتا، درمیانی کوئی راستہ نہیں ہوتا۔‘

پاکستان سولر ایسوسی ایشن نے غیر معیاری سولر پینلز کی روک تھام کے لیے قوانین سخت کرنے کا مطالبہ کیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’جہاں تک بات ہے کہ بجلی کی پیداوار میں سلسلہ وار کمی کی تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہر سولر پینل کی پہلے سال میں دو فیصد پیداوار کم ہوتی ہے بلکہ اس کی وجہ ماحول اور موسم ہے۔‘
یاسر صدیقی بتاتے ہیں کہ پہلے پی ٹائپ پینلز تھے جن کی پہلے سال میں زیادہ سے زیادہ دو فیصد پیداوار کم ہوتی ہے، تاہم آئندہ آنے والے برسوں میں ایسا نہیں ہوتا۔‘
’ان کے سیلز کی عمر 25 سال ہوتی ہے۔ اسی طرح اب جو نئی این ٹائپ ٹیکنالوجی آئی ہے اس کی اوسط عمر 30 سال ہے اور پہلے سال پیداوار کی کمی زیادہ سے زیادہ ایک فیصد ہے۔‘
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کمپنی کی طرف سے بی گریڈ اور سی گریڈ سولر پینلز کی کسی قسم کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی، لہٰذا انہیں خریدنے میں احتیاط ہی برتنی چاہیے۔
پی ایس اے کے ترجمان وقاص موسیٰ کا کہنا ہے کہ ہر پینل کا ایک مخصوص نمبر پرنٹ ہوتا ہے، خریدنے سے پہلے اگر اس کو کمپنی کی ویب سائٹ سے چیک کر لیا جائے تو اس سے بھی صارفین اس قسم کے دھوکے سے بچ سکتے ہیں۔

شیئر: