Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آئی سی 814‘ کی ریلیز کے بعد انڈیا میں نیٹ فلکس تنقید کی زد میں

آئی سی 814 ویب سیریز ایک طیارے کے اغوا کی کہانی پر مبنی ہے (فوٹو: سکرین گریب)
سنہ 1999 میں ہائی جیک کی جانے والی انڈین پرواز آئی سی 814 پر نیٹ فلکس نے ’آئی سی 814: دی قندھار ہائی جیک‘ کے نام سے ایک ویب سیریز ریلیز کی ہے جس میں جہاز کے ہائی جیک ہونے کے واقعے کی کہانی فلمائی گئی ہے۔
این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق آئی سی  814 کو ہائی جیک کیے جانے کے واقعات کے گرد گھومتی اس ویب سیریز کے معاملے کو  حکومت سنجیدگی سے لے رہی ہے، جبکہ این ڈی ٹی وی کو ایک حکومتی ذرائع بے بتایا ہے کہ ’کسی بھی شخص کو اس ملک میں بسنے والی عوام کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘
 حکومتی ذرائع نے مزید کہا ہے کہ ’کسی بھی شخص کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اس قوم کے جذبات کے ساتھ کھیلے۔‘
’انڈیا کی ثقافت اور تہذیب کی عزت کی جانی چاہیے۔ آپ کو کسی بھی چیز کو غلط معنوں میں دیکھانے سے قبل ایک مرتبہ ضرور سوچنا چاہیے۔ حکومت اس معاملے کے ساتھ انتہائی سنجیدگی سے نمٹے گی۔‘
یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب نیٹ فلکس انڈیا کی کنٹینٹ ہیڈ مونیکا شیرگل کو انڈیا کی مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات کی طرف سے ’آئی سی 814‘ ویب سیریز کی وجہ سے پیدا ہونے والے تنازعے کے  باعث طلب کیا گیا تھا۔
سوشل میڈیا کے سینکڑوں صارفین نے ویب سیریز کے تخلیق کاروں پر الزام لگایا ہے کہ ان کی جانب سے جان بوجھ کر ہائی جیکروں کے نام بدل کر ’بھولا‘ اور ’شنکر‘ رکھے گئے ہیں۔
انوبھو سنہا اور ترشانت سری وستوا  کی جانب سے بنائی گئی یہ سیریز دراصل ایک کتاب ’فلائٹ ان ٹو فیئر، دی کیپٹنز سٹوری‘ میں بیان کیے گئے واقعات پر مبنی ہے اور اس میں نصیر الدین شاہ، وجے ورما اور پنکج کپور نے اہم کردار ادا کیے ہیں۔
ویب سیریز میں 24 دسمبر 1999 کو انڈین ایئر لائنز کی پرواز 814 کے ہائی جیکنگ کو  دکھایا گیا ہے۔
24 دسمبر 1999 کو  انڈین ایئر لائنز کا ایک طیارہ ہائی جیک کیا گیا تھا جس میں 191 مسافر سوار تھے اور اس نے نیپال کے دارحکومت  کھٹمنڈو سے دہلی کی طرف اُڑان بھری تھی۔
ٹیک آف کے فوراً بعد ہی پانچ ہائی جیکرز نے جو پہلے ہی مسافروں کا روپ دھارے پرواز میں موجود تھے، جہاز کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔
بعد ازاں اس فلائٹ کے افغانستان کے قندھار شہر میں اترنے سے قبل اسے امرتسر، لاہور اور دبئی کے ائرپورٹس میں بھی اتارا گیا تھا۔
اس وقت کی انڈین حکومت کے سربراہ اٹل بہاری واجپائی پر زوز ڈالا گیا تھا کہ وہ تین خطرناک دہشت گرد مسعود اظہر، احمد عمر سعید شیخ، اور مشتاق احمد زرگر کو رہا کر دیں۔
انڈیا کی وزارت داخلہ نے 6 جنوری 2000 کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ طیارہ اغوا کرنے والوں کے نام ابراہیم اختر، شاہد اختر سید، سنی احمد قاضی، مستری ظہور ابراہیم اور شاکر تھے۔
وزارت داخلہ کے بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ہائی جیکرز اپنے لیے ’چیف‘، ’ڈاکٹر‘، ’برگر‘، ’بھولا‘، اور ’شنکر‘ کے نام استعمال کرتے تھے۔

یہ سیریز دراصل ایک کتاب ’فلائٹ ان ٹو فیئر، دی کیپٹنز سٹوری‘ میں بیان کیے گئے واقعات پر مبنی ہے۔ (فوٹو: بیٹر ورلڈ بکس)

سوشل میڈیا پر بحث چھڑنے کے بعد سنہ 1999 میں اس واقع کو کوریج کرنے والے کئی ایک صحافیوں نے بھی کہا ہے کہ اس پرواز کے مسافروں کے مطابق اغوا کار ایک دوسرے کو مخاطب کرنے کے لیے یہی نام استعمال کرتے تھے۔
خبر کے مطابق جیسے ہی نیٹ فلکس پر یہ سیریز ریلیز کی گئی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تنقید کا آغاز ہو گیا کہ سیریز کے تخلیق کاروں کی جانب سے اغوا کاروں کے لیے غلط نام استعمال کیے گئے ہیں۔
سیریز کے تخلیق کاروں پر تنقید کرنے والوں میں بی جے پی رہنما امت مالویا بھی شامل ہیں۔
انہوں نے اپنے ایک ایکس بیان میں کہا ہے کہ ’آئی سی 814 کے اغوا کار خطرناک قسم کے دہشت گرد تھے، جنہوں نے اپنی مسلم شناخت چھپانے کے لیے نقلی ناموں کا سہارہ لیا تھا۔ فلم ساز انوبھو سنہا نے ان کے لیے غیرمسلم نام استعمال کر کے ان کے مجرمانہ ارادے کو جائز قرار دیا۔ نتیجہ؟ اب کئی دہائیوں بعد لوگ یہ سوچیں گے کہ ہندوؤں نے آئی سی  814 کو ہائی جیک کیا تھا۔‘

شیئر: