Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی عدم استحکام اور معاشی چیلنجز، ریئل اسٹیٹ مارکیٹ بہتر حالات کی منتظر

گذشتہ ایک برس کے دوران مارکیٹ میں پراپرٹی کی قیمتوں اور خرید و فروخت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔(فائل فوٹو: گیٹی امیجز)
پاکستان کا ریئل اسٹیٹ سیکٹر طویل عرصے تک منافع بخش سرمایہ کاری کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ اور اس میں ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کی دلچسپی بڑھتی رہی ہے۔ تاہم رواں برس میں اس مارکیٹ کو معاشی غیریقینی کی صورتحال اور حکومت کے بدلتے ہوئے ضوابط اور صارفین کے رویے میں تبدیلی کے نتیجے میں چیلنجز کا سامنا ہے۔
گذشتہ ایک برس کے دوران مارکیٹ میں پراپرٹی کی قیمتوں اور خرید و فروخت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
ریئل اسٹیٹ سے وابستہ لوگوں کا خیال ہے کہ مارکیٹ ملک کو درپیش وسیع تر اقتصادی چیلنجز سے نمایاں طور پر متاثر ہوئی ہے۔ افراط زر کی بلند شرح، کرنسی کی قدر میں کمی اور تعمیراتی مواد کی بڑھتی ہوئی لاگت جائیداد کے لین دین میں سست روی کا باعث بنی ہے۔ اس کے علاوہ شرح سود میں اضافے نے بھی ممکنہ خریداروں کی قوت خرید کو کم کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے سرمایہ کار محتاط رویہ اختیار کر رہے ہیں۔
اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں پراپرٹی کی خرید و فروخت کا کام کرنے والے ارتضیٰ حسن نے اردو نیوز سے گفتگو میں ان عوامل کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’ریئل اسٹیٹ مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ اگرچہ معمول کا حصہ ہے، لیکن اس وقت مارکیٹ سستی کا اس لیے شکار ہے کہ لوگوں کا حکومتی پالیسیوں پر اعتماد کم ہو گیا ہے، سرمایہ کار اپنا پیسہ بینکوں میں رکھ رہے ہیں کیونکہ 18 سے 20 فیصد مارک اپ ملتا ہے۔ کچھ سرمایہ کار اپنا پیسہ بیرون ملک لے گئے ہیں جبکہ اوورسیز پاکستانیوں کا بھی ملک کی رئیل سٹیٹ مارکیٹ سے اعتماد ختم ہو رہا ہے۔
’اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سیاسی صورت حال ہمیشہ سے ہی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کی بہتری یا خرابی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ملک میں جاری سیاسی ہنگامہ آرائی، خاص طور پر اہم سیاسی شخصیات کی گرفتاریاں اور مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے احتجاج نے غیریقینی کی صورتحال کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ مقامی اور غیرملکی دونوں سرمایہ کار طویل مدتی منصوبوں کے لیے پرعزم ہونے سے گریزاں ہیں کیونکہ انہیں اچانک پالیسی میں تبدیلی یا مارکیٹ میں ممکنہ خلل کا خدشہ ہے۔‘
پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ ندیم ریاض کے مطابق ’مستحکم حکومت کی تشکیل میں تاخیر اور مستقبل میں سیاسی عدم استحکام کے خدشات نے ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کو مزید غیرمستحکم کر دیا ہے۔ بہت سے ممکنہ سرمایہ کار انتظار کر رہے ہیں، اور سرمایہ کاری کے فیصلے کرنے سے پہلے سیاسی منظر نامے کے واضح ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اگرچہ قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن یہ کمی بھی ماضی قریب میں یک دم اوپر جانے والی قیمتوں ہی کی طرح ہے۔ جب بھی ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں ڈاؤن آتا ہے تو اس میں جمپ بھی آتا ہے۔ اب بھی وہ پراپرٹی جس کی موجود ہے وہ نقصان میں نہیں گئی البتہ فائلوں کا کاروبار تقریباً بند پڑا ہے۔

گذشتہ ایک برس کے دوران مارکیٹ میں پراپرٹی کی قیمتوں اور خرید و فروخت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

آبادی میں تیزی سے اضافے اور شہروں میں آباد کاری کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے باعث ملک میں گھروں کی شدید کمی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو سالانہ کم از کم سات لاکھ نئے ہاؤسنگ یونٹس کی ضرورت ہے تاکہ موجودہ اور آنے والی گھریلو ڈیمانڈ کو پورا کیا جا سکے۔
تاہم موجودہ تعمیراتی شرح اس ضرورت کو پورا کرنے سے بہت کم ہے، جس کے نتیجے میں ملک میں ہاؤسنگ کا مجموعی خسارہ ایک کروڑ یونٹس سے تجاوز کر چکا ہے۔
حکومت کے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام جیسے منصوبے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اس منصوبے کو ابھی تک وہ کامیابی نہیں ملی جس کی امید کی جا رہی تھی۔
پراپرٹی کی مارکیٹ سے وابستہ افراد پرامید ہیں کہ ریئل اسٹیٹ کا کاروبار مزید مندی کا شکار نہیں ہو گا۔
پراپرٹی ڈیلر عزیز ملک جو اسلام آباد کے سرکاری سیکٹرز اور بڑی ہائسنگ سوسائٹیوں میں کاروبار کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے سرمایہ کاری اگلے 10 سے 15 برسوں کو ذہن میں رکھ کر کی تھی، وہ اس وقت نقصان میں ہیں۔ البتہ اگر آپ صحیح جگہ پر سرمایہ کاری کرتے ہیں تو بالکل بھی نقصان دہ نہیں ہے۔ اس وقت بھی سی ڈی اے کے سیکٹرز میں قیمتیں اوپر گئی ہیں۔

ارتضیٰ حسن کے مطابق ’پاکستان میں سیاسی صورت حال ہمیشہ سے ہی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کی بہتری یا خرابی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

اسلام آباد کے گرد و نواح میں موجود آبادیوں میں پراپرٹی کا کام کرنے والے فیصل عباسی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اگرچہ مارکیٹ سست ہے لیکن وہ لوگ جنہوں نے اپنا گھر بنانے کے لیے پلاٹ یا بنے بنائے مکان خریدنے ہیں وہ مارکیٹ میں موجود ہیں اور ان کی وجہ سے مارکیٹ بند نہیں ہوئی۔ اس لیے جہاں جہاں بھی لوگ اپنا گھر بنانا چاہ رہے ہیں وہاں وہاں مارکیٹ میں کچھ نہ کچھ سرگرمی ہو رہی ہے۔‘
پراپرٹی ڈیلرز کی اکثریت سمجھتی ہے کہ سیاسی حالات میں بہتری کے ساتھ ہی پراپرٹی کی مارکیٹ میں بہتری اور قیمتوں میں اضافے کا امکان موجود ہے، اس لیے یہ وقت سرمایہ کاری کے لیے بہت موزوں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ چیلنجز کے باوجود پاکستان کی رئیل سٹیٹ مارکیٹ سرمایہ کاروں کو مواقع فراہم کرتی ہے۔ شہری علاقوں میں سستی رہائش کی مانگ زیادہ ہے۔ جو ڈویلپرز کم لاگت ہاؤسنگ سکیموں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں انہیں ایک خاطر خواہ مارکیٹ مل سکتی ہے۔

شیئر: