Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آرٹیکل 63 اے کی تشریح، جسٹس منیب اختر کی بینچ میں بیٹھنے سے معذرت

جسٹس منیب اختر نے رجسٹرار کو خط لکھ کر بینچ میں بیٹھنے سے معذرت کی (فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر نظرثانی اپیلوں پر سماعت جسٹس منیب اختر کی عدم دستیابی کی وجہ سے ملتوی کر دی گئی ہے۔  
پیر کو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلوں پر سماعت ہوئی۔
جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم کمرۂ عدالت میں موجود تھے جبکہ جسٹس منیب اختر کمرۂ عدالت میں نہیں آئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ان کی عدم دستیابی کے حوالے سے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے رجسٹرار کو خط لکھ کر بینچ میں بیٹھنے سے معذرت کی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے خط میں لکھا ہے کہ ’میں بینچ کے لیے دستیاب نہیں ہوں لیکن اس سے الگ نہیں ہو رہا۔ اس صورتحال کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’کیس کے حوالے سے لارجر بینچ آج بنا تھا، جسٹس منیب سے گزارش کریں گے کہ وہ بینچ میں شامل ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جج نے بنچ سے عدم دستیابی ظاہر کی ہے لیکن بنچ سے الگ نہیں ہوئے۔‘ 
تاہم چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ شامل نہ ہوئے تو پھر دستیاب جج کی شمولیت کے بعد سماعت کل دوبارہ ہو گی۔‘
اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے بینچ کی تشکیل کے طریقہ کار پر اعتراض کیا جس کے بعد چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ وہ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ’آرٹیکل 63 اے نظر ثانی کیس دو سال سے زاہد عرصہ سے زیر التواء ہے اور یہ مقدمہ بڑا اہم ہے۔‘ (فوٹو: اُردو نیوز)

بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ وہ عمران خان کی نمائندگی کر رہے ہیں تاہم اڈیالہ جیل کے حکام نے انہیں دستخط شدہ وکالت نامے کے حصول سے روک دیا ہے۔وہ اس سے پہلے پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہے تھے۔  جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ انہیں سنیں گے۔ 
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’آرٹیکل 63 اے نظر ثانی کیس دو سال سے زائد عرصہ سے زیر التواء ہے اور یہ مقدمہ بڑا اہم ہے۔‘
سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح  کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلوں پر سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ 17 مئی کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے تین دو کی اکثریت سے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس کا فیصلہ سنایا تھا۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ منحرف رکن کا ووٹ کاسٹ ہو سکتا ہے لیکن شمار نہیں ہو گا۔ صدارتی ریفرنس میں پوچھے گئے چوتھے سوال (منحرف ارکان کی نااہلی کی مدت) کو سپریم کورٹ نے واپس صدرِ مملکت کو بھجوا دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے ارکان کی نااہلی کی مدت کے لیے قانون سازی کا اختیار پارلیمان کا ہے۔ 

شیئر: