Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اربن ٹرانسپورٹ منصوبہ: ’پنجاب حکومت فیزیبلٹی پر کروڑوں لگا رہی ہے‘

پنجاب حکومت تیسری مرتبہ پرپل اور بلیو لائنز میٹرو ٹرین کے لیے خطیر رقم خرچ کر کے فیزیبلٹی بنوا رہی ہے۔ (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)
لاہور میں میٹرو ٹرانسپورٹ سسٹم پچھلی دو دہائیوں سے زیرِتکمیل ہے۔ میٹرو بس، اورنج لائن اور سپیڈو بس سمیت تین منصوبے گذشتہ 10 برسوں میں مکمل ہوئے البتہ دو منصوبے پرپل اور بلیو لائن ابھی تک فیزیبلٹی سے آگے نہیں بڑھ سکے۔
صرف یہی نہیں بلکہ سرکاری دستاویزات کے مطابق پنجاب حکومت تیسری مرتبہ پرپل اور بلیو لائنز میٹرو ٹرین کے لیے خطیر رقم خرچ کر کے فیزیبلٹی بنوا رہی ہے۔
سب سے پہلے یہ فیزیبلٹی پرویز الٰہی کے دور حکومت میں مکمل ہوئی جس کے بعد سنہ 2014 میں اسے اس وقت کے وزیراعلٰی شہباز شریف نے دوبارہ اپ گریڈ کروایا۔
وزیراعلٰی مریم نواز نے اقتدار سنبھالتے ہی ایک مرتبہ پھر پرپل اور بلیو لائنز کے لیے فیزیبلٹی بنانے کے لیے پنجاب ماس ٹرانسپورٹ اتھارٹی کو ٹاسک دے دیا ہے۔
پنجاب ماس ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے جنرل منیجر عزیر شاہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ہوئے بتایا کہ ’اس وقت دونوں منصوبوں پر پھر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ اور اس حوالے سے نیسپاک ٹریفک اور روٹس کی سٹڈی کر رہا ہے جس کے بعد ایک انٹرنیشل ٹینڈر کے ذریعے فیزیبلٹی رپورٹ تیار کروانے کے لیے کسی کمپنی کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ اس وقت نیسپاک کچھ امریکی ایکپسرٹس کے ساتھ مل کر یہ ابتدائی کام پورا کر رہی ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس سے پہلے بھی فیزیبلٹی بنائی گئی جس پر خطیر رقم خرچ ہوئی، کیا اب کی بار یہ منصوبے شروع ہو جائیں گے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے قانون کے مطابق کوئی بھی فیزیبلٹی رپورٹ تین سال کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ اس کی معیاد ہی تین سال ہے۔ اگر تین سال اس پر کام شروع نہ ہو تو وہ ضائع ہو جاتی ہے کیونکہ جس تیزی سے ڈالر اور روپے کی قدر تبدیل ہوتی ہے۔ اخراجات کی لاگت بھی بدل جاتی ہے۔‘

وزیراعلٰی مریم نواز کی دی جانے والی بریفنگ کے مطابق بلیو اور پرپل لائنز پر تقریباً 3 کھرب روپے لاگت آئے گی۔ (فائل فوٹو: سکرین گریب)

فیزیبلٹی سٹڈی پر لاگت کے حوالے سے عزیر شاہ نے کہا کہ وہ اس بارے میں ابھی کچھ نہیں بتا سکتے۔ تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق اس پر 25 کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے۔ اس سے پہلے شہباز شریف کے دور میں اس پر تقریباً 15 کروڑ روپے لگائے گئے تھے۔
خیال رہے کہ 2007 میں بنائے جانے والے لاہور کے ماسٹر ٹرانسپورٹ پلان کے مطابق سال 2030 تک کل آٹھ روٹس پر پبلک ٹرانسپورٹ کو چلایا جانا تھا۔
ان روٹس میں گرین لائن، اورنج لائن، بلیو لائن ، پرپل لائن، بی آر ٹی ون، بی آر ٹی ٹو، بی آر ٹی 3 اے اور بی آر ٹی 3 بی شامل ہیں۔ تاہم 2024 کے اختتام پر ابھی تک گرین (میٹرو بس) اور اورنج لائن ٹرین ہی بن پائے ہیں۔
مبصرین کے مطابق ان منصوبوں میں تاخیر کے سبب اب ان کی لاگت کئی گنا بڑھ چکی ہے اور یہ تقریباً ناقابل عمل منصوبوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
وزیراعلٰی مریم نواز کی دی جانے والی بریفنگ کے مطابق بلیو اور پرپل لائنز پر تقریباً 3 کھرب روپے لاگت آئے گی۔

عظمیٰ بخاری کے مطابق ’سنہ 2018 کی الیکشن مہم میں اس وقت کے وزیراعلٰی شہباز شریف نے بلیو اور پرپل لائن کو اپنے منشور کا حصہ بنایا تھا۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیس اسلم کہتے ہیں کہ اس وقت ملکی اقتصادی حالت ایسی ہے کہ تین ارب ڈالر سے زائد کے منصوبے شروع کرنا ناممکن ہے۔
’اس وقت پاکستان کا اقتصادی ڈھانچہ تقریباً گر چکا ہے اور سہاروں پر کھڑا ہے۔ بس فیزیبلٹی کے نام پر ایک مرتبہ پر کروڑوں روپے سرکاری خزانے سے خرچ ہو جائیں گے۔ پہلے بی دو بار ہو چکے ہیں۔ اورنج لائن بھی اگر چینی قرض شامل نہ ہوتا تو بنانا ناممکن تھا۔ یہ صرف سیاسی شعبدہ بازی ہے۔‘
تاہم پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ ’سنہ 2018 کی الیکشن مہم میں اس وقت کے وزیراعلٰی شہباز شریف نے بلیو اور پرپل لائن کو اپنے منشور کا حصہ بنایا تھا، اس کے بعد جس طرح پنجاب پر نااہل ٹولے کو مسلط کیا گیا تو شروع کیے گئے کام بھی ٹھپ ہو گئے۔ اب ایک مرتبہ پھر عوامی منصوبے بنانے والوں کی حکومت آئی ہے تو کام وہیں سے شروع کیے جا رہے ہیں جہاں اس وقت ختم ہوئے تھے۔ اگر اس وقت کام جاری رکھے جاتے تو اب دوبارہ فیزیبلٹی کی ضرورت نہ پڑتی۔‘

شیئر: