Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی یونیورسٹی کے پاکستانی پروفیسر مسلسل دوسری مرتبہ ٹاپ سائنس دانوں کی فہرست میں شامل

ڈاکٹر سجاد شوکت جمال اب تک 100 سے زائد تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں (فائل فوٹو: کنگ خالد یونیورسٹی)
جب بھی سعودی عرب اور پاکستان کے باہمی تعلقات کی بات ہوتی ہے تو سعودی تعمیر و ترقی میں پاکستانیوں کے کردار کا ذکر ضرور آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب میں پاکستانی محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد ایک طویل عرصے سے کام کر رہی ہے اور یہ سلسلہ ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔
لیکن سعودی عرب کی جامعات میں پاکستانی اساتذہ کی بڑی تعداد بھی نہ صرف سعودی بلکہ دنیا بھر سے حصول علم کے متلاشی طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہی ہے۔
ان اساتذہ میں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سجاد شوکت جمال بھی شامل ہیں جو ابہاء کی کنگ خالد یونیورسٹی کے شعبہ ریاضی سے وابستہ ہیں۔
سالانہ بنیادوں پر سٹینفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے دنیا بھر کے ان سائنس دانوں کی فہرست جاری کی جاتی ہے جن کے تحقیقی مقالے دنیا بھر میں ہونے والی ریسرچ میں بطور حوالہ نقل کیے جاتے ہیں۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی کی 2024 کی فہرست کے مطابق ڈاکٹر سجاد شوکت جمال کا نام بھی ٹاپ دو فیصد سائنس دانوں کی فہرست میں شامل ہے جبکہ انہیں یہ اعزاز مسلسل دوسرے سال حاصل ہوا ہے۔
ڈاکٹر سجاد شوکت جمال کا شعبہ ریاضی ہے جب ان کی ریسرچ ریاضی کا سکیورٹی مشینوں میں استعمال سے متعلق ہے۔ ریاضی چونکہ تمام سائنسی علوم کا ماخذ سمجھی جاتی ہے جسے بروئے کار لا کر انہوں نے جدید سکیورٹی مشینوں میں ریاضی کے استعمال پر ریسرچ کی ہے۔
وہ اب تک 100 سے زائد تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں جو دنیا کے بہترین جرائد میں شائع ہوئے ہیں جن میں نان لینیئر ڈائنامکس جرنل، انٹروپی، ایم ڈی پی آئی اور سپرنگر یو ایس جیسے عالمی جریدے شامل ہیں۔ جبکہ دنیا بھر کے دیگر محققین نے ان کی تحقیق کو اپنے مقالوں میں بطور حوالہ یا مثال بھی پیش کیا ہے۔
گوگل سکالر کے مطابق ڈاکٹر سجاد شوکت جمال کے چار تحقیقاتی مقالے ایسے ہیں جنہیں ایک سو سے ڈیرھ سو مرتبہ دیگر تحقیقاتی مقالوں میں بطور حوالہ نقل کیا گیا۔

سٹینفورڈ یونیورسٹی ہر سال دنیا بھر کے سائنس دانوں اور ریسرچرز کی ایک ایک فہرست ٹاپ دو فیصد سائنس دانوں کے نام سے جاری کرتی ہے (فائل فوٹو: ڈاکٹر سجاد شوکت جمال)

اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سجاد شوکت جمال نے بتایا کہ ’میں نے 2018 میں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ریاضی میں پی ایچ ڈی کی تھی۔ اس دوران میری ریسرچ ریاضی کا کرپٹوگرفی یعنی ریاضی کا سکیورٹی مشینوں میں استعمال ہے اور اس کے علاوہ میں نے کرپٹو گرافی اور مشین لرننگ میں اپنا علم کو مزید آگے بڑھایا ہے۔ میرے ایک سو سے زائد تحقیقی مقالے بھی اسی کے گرد گھومتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’2022 میں مجھے میری اپنی یونیورسٹی یعنی کنگ خالد یونیورسٹی نے ایمرجنگ ریسرچر کا ایوارڈ دیا تھا۔ سال 2023 اور اب 2024 یعنی مسلسل دوسری مرتبہ میرا نام ٹاپ دو فیصد سائنس دانوں کی فہرست میں آیا ہے۔ جو اس بات کا اعتراف ہوتا ہے کہ ہے کتنے لوگ آپ کی ریسرچ کو اپنی تحقیق میں بطور حوالہ نقل کر رہے ہیں۔ اسی کی بنیاد پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ کن ریسرچرز کے آرٹیکلز نقل ہو رہے ہیں، انہیں اس فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرے تحقیقی مقالوں میں سعودی عرب کی کنگ خالد یونیورسٹی کا بڑا کلیدی کردار ہے۔ یونیورسٹی نے ہمیں ایسا سازگار ماحول دیا، ہمیں ایسے منصوبے فراہم کیے جہاں ہم ریسرچ کرکے یہ مقالے لکھ سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں وقت دیا جس کی وجہ سے یہ سب ممکن ہوا۔ اس میں کنگ خالد یونیورسٹی کے شعبہ ریاضی اور ڈین سائنٹیفک ریسرچ نے بڑا کردار ادا کیا۔‘

ڈاکٹر سجاد شوکت جمال نے کہا ’میرے تحقیقی مقالوں میں سعودی عرب کی کنگ خالد یونیورسٹی کا بڑا کلیدی کردار ہے‘ (فائل فوٹو: سکرین گریب)

اپنے تعلیمی سفر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’2005 میں ماسٹرز کر لیا تھا لیکن اپنے خاندان کو مالی طور پر سپورٹ کرنے کے لیے تعلیم کا سلسلہ روکنا پڑا اور اس سلسلے میں مجھے مختلف اداروں میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے۔ گارڈن کالج، پنجاب کالج اور کچھ دیگر تعلیمی اداروں میں پڑھانے کے بعد 2008 میں دوبارہ ایم فل میں داخلہ لیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اپنے لیے ایک مقصد طے کیا ہوا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے مجھے پی ایچ ڈی لازمی کرنا ہے تو میں نے ایم فل کے ساتھ ساتھ پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ 2012 میں تمام تر معاشی چیلنجز کے باوجود پی ایچ ڈی میں داخلہ حاصل کیا۔ اس دوران میری فیملی کو مالی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن انھوں نے میرا ساتھ دیا۔ یوں تمام مشکلات کے باوجود میری پی ایچ ڈی مکمل ہوئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد میرے پروفائل اور میری ریسرچ کی فیلڈ جو کہ ماڈرن سکیورٹی کی فیلڈ ہے اس کی بنیاد پر مجھے سعودی عرب کی کنگ خالد یونیورسٹی میں ملازمت ملی۔ یہاں آنے کے بعد ریسرچ کے دروازے مزید کھل گئے اور میں نے تندہی کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھایا اور اس میں یونیورسٹی نے بھی ہمیں بھرپور تعاون فراہم کیا۔‘
سٹینفورڈ یونیورسٹی ہر سال دنیا بھر کے سائنس دانوں اور ریسرچرز کی ایک ایک فہرست ٹاپ دو فیصد سائنس دانوں کے نام سے جاری کرتی ہے جو سائنس کے 22 شعبوں سے متعلق ان کی تحقیق اور اس کی بطور حوالہ استعمال کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہے۔
سنہ 2024 کی فہرست میں چین، امریکہ، انڈیا، سعودی عرب، پاکستان اور سپین سمیت دنیا کے متعدد ممالک کی جامعات کے پروفیسرز شامل ہیں۔

شیئر: