Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مراکش کی قبائلی خواتین میں ٹیٹو کی معدوم ہوتی ہوئی صدیوں پرانی روایت

مراکش کے امازیغ قبیلے کی خواتین چہرے پر مخصوص ٹیٹو سے پہچانی جاتی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
مراکش کے سلسلہ کوہِ اطلس کے دامن میں رہنے والے ’امازیغ‘ قبیلے کی خواتین چہرے پر ایک خاص ٹیٹو یعنی نقش و نگار سے پہچانی جاتی ہیں جو دراصل ایک صدیوں پرانی روایت ہے۔
کوہِ اطلس میں زندگی گزارنے والی 67 سالہ ہنود مولود نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ قبائلی خواتین کی روایت کو زندہ رکھنے کی غرض سے گھر والوں نے ان کے چہرے پر ٹیٹو بنوائے تھے۔
ہنود مولود نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ’جب میں 6 برس کی تھی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ٹیٹو کے ذریعے خود کو خوبصورت انداز میں سجا جایا جا سکتا ہے۔‘
ہنود مولود کا تعلق مراکش میں املشیل گاؤں سے ہے جو کوہِ اطلس کے دامن میں واقع ہے اور جہاں کی قبائلی خواتین کئی نسلوں سے چہرے پر ٹیٹو بنواتی آ رہی ہیں۔
ان خواتین کا تعلق شمالی افریقہ کے ’امازیغ‘ گروہ سے ہے جس کا مطلب ’آزاد لوگ‘ ہیں۔
چہرے پر نقش بنوانا کئی صدیوں سے مقامی کلچرز اور ثقافتوں کا حصہ رہا ہے لیکن جدید معاشرے کے طرزِ زندگی میں یہ روایت بھی معدوم ہوتی جا رہی ہے۔
اکثر کا خیال ہے کہ مراکش میں مذہب کی جانب بدلتے ہوئے رویے بھی اس معدومیت کا سبب ہیں۔ کچھ اسلامی تشریحات کے تحت چہرے یا جسم پر رنگوں کے ذیعے نقش کروانا برا سمجھا جاتا ہے بلکہ کان، ناک یا کسی اور حصے پر سوراخ کروانے کی بھی ممنوع سمجھا جاتا ہے۔
’امازیغ‘ گروہ سے تعلق رکھنے والی خواتین اپنی ٹھوڑی پر نیلے رنگ کی دھاریاں بنواتی ہیں اور یہی ان کی پہچان بھی ہے۔
ہنود مولود نے بتایا ’ہم کوئلے سے اپنے چہرے پر ڈیزائن بناتے تھے اور پھر ایک خاتون اس ڈیزائن پر سوئیاں چبوتی تھی جب تک کہ خون نہ نکل آئے۔‘

ہر قبیلے کی خاتون اپنے چہرے پر مخصوص ڈیزائن کا ٹیٹو بنواتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس زخم پر روزانہ ایک سبز رنگ کی بوٹی رگڑی جاتی تھی تاکہ ٹیٹو کا رنگ گہرا آئے۔
ہر قبیلے سے تعلق رکھنے خاتون ایک مخصوص ڈیزائن بنواتی تھی جس سے نہ صرف خوبصورتی میں اضافہ ہوتا تھا بلکہ اس قبیلے سے وابستگی کا بھی اظہار تھا۔
ایک اور 71 سالہ خاتون ہنو مجین نے بتایا کہ ٹیٹو بنوانا تکلیف دہ عمل ہے اور ’ہمارے آنسو نہیں رکتے تھے۔ لیکن یہ ہماری روایت ہے جو اب ہم تک پہنچی ہے۔‘
شمالی افریقہ میں ’امازیغ‘ گروہ کی سب سے بڑی آبادی مراکش میں رہائش پذیر ہے اور عربی کے ساتھ ساتھ ان کی زبان کو بھی سرکاری درجہ دیا گیا ہے۔
املشیل سے تعلق رکھنے والے محقق عبدالواحد نے بتایا کہ خواتین اکثر اپنی ٹھوڑی، ماتھے یا ہوتھوں پر ٹیٹو بنواتی ہیں۔
ہر ڈیزائن ہر کمیونٹی کے لیے علیحدہ معنی رکھتا ہے اور خواتین ٹیٹو کے ذریعے اپنی خوبصورتی اور اقدار کا اظہار کرتی ہیں۔

شیئر: