Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینیٹر قاسم رونجھو مستعفی: بی این پی ساکھ بچا پائے گی؟

اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ان قوتوں کو سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں نے طاقتور بنایا جن کو عوام کا خیال نہیں صرف اقتدار کی ہوس ہے. (فوٹو: ایکس)
بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر محمد قاسم رونجھو نے اپنی  سینیٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ بی این پی کے سردار اختر مینگل نے پارٹی فیصلے کے برعکس 26ویں آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دینے پر ان سے استعفیٰ طلب کیا تھا۔
پارٹی نے ترامیم کے حق میں  ووٹ دینے پر خاتون  سینیٹر نسیمہ احسان شاہ  سے بھی استعفیٰ مانگا ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ خاتون سینیٹر نے سینیٹ کی رکنیت چھوڑنے سے انکار کردیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سینیٹر کے استعفے کے باوجود بی این پی کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کی فوری تلافی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ قیادت کو  نہ صرف پارٹی کے اندر بلکہ صوبے کے سیاسی فضا میں بھی تنقید اور سوالات کا سامنا  ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی نے 26ویں آئینی ترامیم کی مخالفت کا فیصلہ کیا تھا تاہم پارٹی کے ٹکٹ اور حمایت سے منتخب ہونے والے دونوں سینیٹرز محمد قاسم رونجھو اور  نسیمہ احسان شاہ نے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 20 اکتوبر کو سینیٹ کے اجلاس میں پیش کی گئیں ترامیم کی منظوری کے لیے ووٹ دیا۔
اختر مینگل نے دعویٰ کیا کہ پارٹی کے سینیٹرز اور ان کے اہلخانہ کو ہراساں  کرکے ان پر ووٹ ڈالنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ ان  کا کہنا تھا کہ فیصلے کی پابندی نہ کرنے پر پارٹی نے دونوں سینیٹر سے  استعفیٰ لینے کا فیصلہ کیا۔ انہیں چوبیس گھنٹے کے اندر استعفیٰ دینے کا کہہ دیا گیا دوسری صورت میں ان کے خلاف قانونی و تادیبی کارروائی کی جائے گی۔
منگل کو  سینیٹر محمد قاسم رونجھو نے  اپنا استعفیٰ سینیٹ سیکریٹریٹ میں  جمع کرادیا ۔ اس کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے محمد قاسم رونجھو نے کہا کہ  ’زور آور لوگ آئے تھے چھ  سات دن مہمان بنایا ۔میں ڈائیلائسز کا مریض ہوں اس دوران  دو دفعہ ڈائیلائسز کرایا۔ مچھر کاٹنے سے ملیریا ہوگیا تو ایک بار پھر ہسپتال لے گئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے کہا کہ مجھے چھوڑ دوں تاکہ گھر چلا جاؤں، میں کوئی پاکستان سے بھاگ تو نہیں رہا لیکن انہوں نے کہا کہ دو دن ہمارے بھی مہمان بنیں اور ہمارا کھانا کھائیں۔‘
رابطہ منقطع ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے قاسم رونجھو  کا کہنا تھا کہ  ان سے شروع میں ہی موبائل فون لے گئے تھے۔

تاہم قاسم رونجھو نے چند گھنٹے بعد ہی  اپنے ویڈیو بیان میں پریس کانفرنس میں لگائے گئے الزامات کی تردید کردی- (فوٹو: سکرین گریب)

قاسم رونجھو کا کہنا تھا کہ وہ بی این پی کے ادنیٰ ورکر تھے اور بچپن سے ہی سردار عطاء اللہ مینگل سے متاثر تھے۔
عطاء اللہ مینگل جلاوطنی ختم کرکے پاکستان واپس آئے تو انہوں نے پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔ ان کی سوچ سے متاثر ہوکر اپنے علاقے کے لیے کچھ کرنے کا عزم تھا لیکن جب سینیٹ میں آئے تو یہاں دیکھا عوام کے مسائل پر بات کرنے کا بہت کم موقع ملتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ کے ساڑھے تین سال عذاب میں گزرے۔ ’یہاں جو حاکم ہے ان کی چلتی ہے۔ وہی فیصلے اور عمل کراتے ہیں۔ ستر سالوں سے یہی ہوتا آرہا ہے  اب جب ہم پر گزری تو پتہ چلا کہ فیصلے کیسے ہوتے ہیں۔ زیادہ بولوں گا تو مسئلے اور پیچیدہ ہوجائیں گے۔
’میں اس ایوان میں بیٹھے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا اچھا نہیں سمجھتا۔ ان میں سیاستدان بہت کم نظر آتے ہیں دوسروں کی بولی بولتے ہیں اسی پر ان کو شاباشی ملتی ہے۔‘
سردار اختر مینگل نے کہا کہ سینیٹر قاسم رونجھو ایوان  کے اندر جا کر استعفا دینے کے ساتھ ساتھ آب بیتی بیان کرنا چاہتے تھے لیکن  جب ان کے پہنچتے ہی کھلبلی مچ گئی۔ ایوان میں وقفہ کرانے کے بعد حکومتی ارکان نے کورم توڑا تاکہ قاسم رونجھو بات نہ کرسکیں۔ اس کے بعد انہیں لابی سے  اٹھانے کی کوشش کی گئی لیکن ہم  انہیں یہاں لے کرآئے۔
اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ان قوتوں کو سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں نے طاقتور بنایا جن کو عوام کا خیال نہیں صرف اقتدار کی ہوس ہے ان کو یہ معلوم ہے کہ اقتدار بغیر ان کی چاپلوسی کے نہیں مل سکتا۔ ’یہ وہ قوت ہے جس نے 1998 میں وزیراعظم کو قیدی بنا کر بیرون ملک بھیج دیا ۔ ہمارے تو ایک دو وٹ ہیں ہمیں شاباشی دیں کہ پھر بھی ان کا مقابلہ کررہے ہیں۔‘
تاہم قاسم رونجھو نے چند گھنٹے بعد ہی  اپنے ویڈیو بیان میں پریس کانفرنس میں لگائے گئے الزامات کی تردید کردی-  ان کا کہنا تھا کہ ’آج مجھے پارٹی کے سربراہ ،کارکنوں اور دو تین  ایم پی ایز نے لے جا کر زبردستی پریس کانفرنس کروائی - یہ زبردستی کے الفاظ تھے جو آگے لکھے ہوئے تھے کہ مجھے گھر سے اٹھایا گیا- جو میں پڑھ رہا رہا تھا ، یہ مکمل  جھوٹ اور من گھڑت ہے، ایسی کوئی بات ہے ہی نہیں-  میں پندرہ دن سے گھر پر تھا- جو باتیں مجھ سے کہلوائی گئیں میں اس کی تردید کرتا ہوں-‘
سردار اخترمینگل نے خاتون سینیٹر نسیمہ احسان شاہ کے استعفے سے متعلق کوئی بات نہیں کی۔ بی این پی کے ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ نسیمہ احسان شاہ نے سینیٹ کی رکنیت سے استعفا دینے سے انکار کردیا ہے۔

سینیٹ کی ویب سائٹ پر ممبران کی فہرست میں بھی نسیمہ احسان شاہ کو آزاد سینیٹر دکھایا گیا ہے۔ (فوٹو: سینیٹ)

نسیمہ احسان شاہ آزاد امیدوار کے طور پر بی این پی کی حمایت سے سینیٹرمنتخب ہوئی تھی۔ انہوں نے مارچ 2021  میں سینیٹ کے انتخابات سے صرف ایک دن قبل بی این پی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔ لیکن کامیابی کے بعد نسیمہ احسان شاہ نے سینیٹ اور الیکشن کمیشن میں خود کو بی این پی  کے سینیٹر کے طور پر رجسٹرڈ کرانے کی بجائے اپنی آزاد حیثیت  کو برقرار رکھا۔
سینیٹ کی ویب سائٹ پر ممبران کی فہرست میں بھی نسیمہ احسان شاہ کو آزاد سینیٹر دکھایا گیا ہے۔
بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار رشید بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی آزاد حیثیت کی وجہ سے نسیمہ احسان شاہ کے خلاف کسی قانونی کارروائی کی مجاز ہے اور نہ ہی ان کی سینیٹ رکنیت ختم کراسکتی  ہے۔
قاسم رونجھو  کے استعفے کے بارے میں رشید بلوچ کہتے ہیں کہ یہ قابل فہم ہے کہ سینیٹرز پر بہت دباؤ تھا لیکن ان کے پاس ترامیم کی منظوری سے پہلے ہی استعفیٰ دینے کا آپشن تھا اگر وہ یہ آپشن استعمال کرتے تو شاید ان کی اور پارٹی دونوں کی ساکھ بچ جاتی۔
’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت کے مصداق اس وقت استعفیٰ دینے کا فائدہ نظر نہیں آرہا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں سینیٹرز نے اس پورے عمل کے دوران کئی معاملات میں اپنی قیادت کو گمراہ کیا ہو۔‘
نسیمہ احسان شاہ کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ سے ہے ۔ وہ سید احسان شاہ کی اہلیہ ہیں جو بلوچستان اسمبلی کے چار بار رکن اور متعدد بار صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔
سید احسان شاہ  پارٹی کے ان منحرف ارکان میں  شامل تھے جنہوں نے 1997 میں سردار اختر مینگل کی جماعت سے الگ ہوکر ان کی حکومت گرادی تھی۔
اس کے بعد سید احسان شاہ نیشنل الائنس، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی  کا حصہ رہے۔
مارچ 2021 میں سید احسان شاہ سینیٹ انتخابات میں خواتین کی مخصوص نشست پر آزاد امیدوار اپنی اہلیہ کو کامیاب کرانے کی شرط پر بی این پی  میں شامل ہوئے تھے۔ بی این پی نے پارٹی کی دیرینہ کارکن طاہرہ احساس  کو دستبردار کرا کر نسیمہ احسان کو کامیاب کرایا تھا۔
محمد قاسم رونجھو کا تعلق بلوچستان کے ضلع لسبیلہ سے ہے۔ وہ بڑے سرمایہ کار سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی بی این پی سے وابستگی پرانی ہے تاہم  پارٹی کے اندر بہت زیادہ فعال  نہیں رہے۔
وہ مارچ 2021 میں جنرل نشست پر بی این پی کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔ان کی سینیٹ کی رکنیت کی مدت مارچ 2027 تک تھی۔
تین سال قبل سینیٹ کے انتخابات میں قاسم رونجھو اور نسیمہ احسان کی کامیابی کے بعد بھی بی این پی تنازع کا شکار ہوئی تھی۔ پارٹی کے دیرینہ اور مخلص کارکنوں کو نظر انداز کرکے سرمایہ کار اور صرف چوبیس گھنٹے پہلے پارٹی میں شامل ہونےوالی خاتون کو ٹکٹ دینے پر تنقید کی گئی۔

تجزیہ کار رشید بلوچ کا کہنا تھا کہ ساجد ترین کی شکست پر بھی بی این پی قابل اعتماد وضاحت نہیں کرسکی۔(فوٹو: ایکس)

اسی طرح جے یو آئی سے اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بدولت جنرل نشست پر پارٹی کے دیرینہ کارکن اور موجودہ نائب صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ کی مطلوبہ ارکان کی تعداد  پوری ہونے کے باوجود شکست پر بی این پی کو شرمندگی اٹھانی پڑی ۔ ساجد ترین کی کامیابی یقینی تھی لیکن انہیں  دو ووٹ کم پڑ گئے  ۔ پارٹی کے ارکان اسمبلی پر شک کے دائرے میں آگئے ۔ ایک خاتون ایم پی اے زینت شاہوانی کو اس پاداش میں پارٹی سے بھی باہر نکالا گیا۔
بی این پی  نے ووٹ کم پڑنے کی تحقیقات کرانے کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی ۔ پارٹی کے ایک سینئر عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ دوسرا ووٹ کس نے نہیں دیا ۔ پارٹی کو اتحادی جماعت جے یو آئی کے ایک رکن اسمبلی پر شک تھا لیکن  جے یو آئی نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ بی این پی اپنے صفوں میں چور ڈھونڈیں۔
تجزیہ کار رشید بلوچ کا کہنا تھا کہ ساجد ترین کی شکست پر بھی بی این پی قابل اعتماد وضاحت نہیں کرسکی۔ خاتون ممبر کو کمزور سمجھ کر پارٹی سے نکال لیا گیا مگر خلاف ورزی کرنےوالے دوسرے  رکن کا آج تک پتہ نہیں چل سکا۔
ان کا کہنا ہے کہ بی این پی نے حسین واڈیلہ ، ساجد ترین اور طاہرہ احسان جیسے نظریاتی اور مخلص کارکنوں کو نظر انداز کرکے جن کو ٹکٹ دیا انہوں نے مشکل وقت میں پارٹی کا ساتھ نہیں دیا۔احسان شاہ نے 1997 میں مشکل وقت میں پارٹی چھوڑ دی تھی لیکن اس کے باوجود اعلیٰ تعلیم یافتہ پارٹی کی امیدوار کو دستبردار کراکر ان کی جگہ احسان شاہ کی اہلیہ کو سینیٹر بنایا گیا جس نے آج تک پارٹی میں  باقاعدہ شمولیت ہی نہیں کی ۔
ان کا کہنا تھا کہ  حسین واڈیلہ ناراض ہوکر پارٹی ہی چھوڑ گئے  اور گوادر میں حق دو تحریک کی قیادت سنبھالی ۔اگر مخلص اور نظریاتی کارکنوں کو ٹکٹ دیا جاتا تو شاید بی این پی کو آج یہ خفت و ندامت نہ اٹھانی پڑتی۔
2006ء میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے واقعہ کے خلاف بطور احتجاج بلوچستان نیشنل پارٹی نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا  تھا تب پارٹی کے سینیٹر ثناء بلوچ نے استعفا نہیں دیا اور بیرون ملک چلے گئے ۔ ان کے خلاف پارٹی نے کوئی کارروائی نہیں کی اس طرح وہ پہلے سے زیادہ مضبوط پوزیشن کے ساتھ پارٹی کا حصہ بنے۔
رشید بلوچ کا کہنا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کے باوجود ان کے ارکان کی جانب سے ووٹ ڈالنے کے عمل نے بی این پی کو مشکل میں ڈال دیا ہے  پارٹی کے کارکن اور عام لوگ سوالات اٹھارہے ہیں ۔بی این پی بطور جماعت ڈسپلن اور فیصلوں پر عملدرآمد میں ناکام نظر آئی جس کا انہیں یقینا ً سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
 

شیئر: