فنگر پرنٹس میچ نہ ہوں تو بائیو میٹرک کی تصدیق کیسے؟
فنگر پرنٹس میچ نہ ہوں تو بائیو میٹرک کی تصدیق کیسے؟
بدھ 23 اکتوبر 2024 9:34
زین علی -اردو نیوز، کراچی
کراچی کے محمد اویس کو موبائل سِم اپنے نام کروانے کے لیے نادرا اور موبائل کمپنی کے چکر لگانا پڑے (فائل فوٹو: پِکسابے)
پاکستان کے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے محمد اویس سکیورٹی کیمرے لگانے کا کام کرتے ہیں۔ اویس نے بتایا کہ وہ گذشتہ دو ہفتوں سے پریشانی کا شکار ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ میں ایک روز گلشنِ اقبال کے ایک گھر میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے میں مصروف تھا کہ اس دوران میرے موبائل پر ایک پیغام موصول ہوا۔
’وہ پیغام پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے بھیجا گیا تھا، میں کام میں مصروف تھا اور سوچا کہ شاید یہ کوئی پروموشنل یا عام سے پیغام ہے جو عموماً صارفین کو بھیجا جاتا ہے۔‘
محمد اویس کے مطابق اس بات کو ابھی پانچ روز ہی گزرے تھے کہ ایک بار پھر پی ٹی اے کی جانب سے وہی پیغام موصول ہوا اور یہ اردو زبان میں تھا۔
’میں نے اس پیغام کو دیکھا تو حیران رہ گیا، پی ٹی اے کی جانب سے مجھے بتایا گیا کہ میرے استعمال میں جو سِم ہے وہ میرے نام پر رجسٹرڈ نہیں ہے، اگر 15 اکتوبر تک میں نے سِم اپنے نام نہ کرائی تو اِسے بند کردیا جائے گا۔‘
اویس کے لیے یہ پیغام حیران کن تھا، کیونکہ وہ گذشتہ 14 ااسال سے یہی نمبر استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے یو فون موبائل کمپنی کی ہیلپ لائن پر کام ملائی، طویل انتظار کے بعد اُن کا رابطہ ہیلپ لائن پر موجود نمائندے سے ہوا۔
اویس نے کمپنی کے نمائندے کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں پی ٹی اے کی جانب سے پیغامات موصول ہو رہے ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ میری سِم میرے نام پر رجسٹر نہیں ہے، اور اکتوبر میں بند کردی جائے گی۔
ہیلپ لائن کے نمائندے نے اویس کے شناختی کارڈ کا نمبر لیا اور اپنے سسٹم میں کال کرنے والے نمبر کی تفصیلات چیک کیں۔ کسٹمرز سروس کے نمائندے نے اویس کو بتایا کہ پی ٹی اے کا میسج بالکل درست ہے۔
اویس کو بتایا گیا کہ اُن کے زیراستعمال سِم کسی خاتون کے نام پر رجسٹرڈ ہے جن کا 2017 میں انتقال ہوچکا ہے۔ اب پی ٹی اے کی جانب سے مہم چلائی جا رہی ہے کہ جو نمبر بھی کسی مرحوم شخص کے نام پر رجسٹرڈ ہے وہ بند کردیا جائے گا۔
اویس نے کمپنی کے نمائندے سے اصرار کیا کہ انہیں بتایا جائے کہ اُن کا نمبر کس کے نام پر رجسٹرڈ ہے؟ نمائندے نے انہیں بتایا کہ کمپنی کی پالیسی ہے کہ کسی بھی فرد کی تفصیلات کال پر فراہم نہیں کی جاتیں۔
صارف کو اصل شناختی کارڈ کے ساتھ سروس سینٹر کا دورہ کرنا ہوتا ہے، اور آسان سے پروسیس کو مکمل کرنے کے بعد سِم کو اپنے نام رجسٹر کروایا جاسکتا ہے۔‘
اویس اگلے روز نارتھ ناظم آباد کراچی میں واقع یوفون کے سینٹر پہنچے اور سارا معاملہ کاؤنٹر پر موجود نمائندے کو تفصیل سے سمجھایا۔
کسٹمر سینٹر کے نمائندے نے اویس سے اصل شناختی کارڈ وصول کرنے کے بعد تفصیلات چیک کیں اور انہیں بتایا کہ ان کا نمبر افروز نامی خاتون کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔
اویس نے یوفون کے نمائندے کو بتایا کہ یہ تو اُن کی والدہ کا نام ہے۔ نمائندے نے اویس کی والدہ کے شناختی کارڈ کی تفصیلات معلوم کیں تو واضح ہوا کہ اُن کا نمبر ان کی والدہ کے نام پر ہی رجسٹرڈ ہے۔
اس کے بعد اویس نے والدہ کا اصل ڈیتھ سرٹیفیکیٹ اور دیگر دستاویزات اپنے بھائی سے منگوائیں اور موبائل کمپنی کی پالیسی کے مطابق ایک درخواست دیتے ہوئے سِم اپنے نام رجسٹر کرنے کی درخواست دی۔
کمپنی کے عملے نے پروسس مکمل کیا اور نمبر اویس کے نام رجسٹر کرنے کے لیے اُن کے انگوٹھے اور انگلی کے نشان کو سکین کرنا چاہا۔
تاہم سسٹم میں اُن کے انگوٹھے اور انگلیوں کے نشانات کی تصدیق نہیں ہو سکی، کئی بار کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہیں ہوسکی۔
موبائل کمپنی کے نمائندے نے اویس کو بتایا کہ اُن کے ہاتھ میں الرجی کی وجہ سے فنگر پرنٹس ہلکے پڑ گئے ہیں اور سسٹم میں اُن کی تصدیق نہیں ہو پا رہی۔
’آپ کو اس مقصد کے لیے نادرا سے رجوع کرنا ہوگا اور وہاں سے سرٹیفیکیٹ بنوانا ہوگا، اِس کے بغیر آپ کے زیرِاستعمال موبائل نمبر آپ کے نام ٹرانسفر نہیں ہوسکے گا۔‘
موبائل کمپنی کے بعد اب اویس کے لیے ایک نیا امتحان سامنے آگیا تھا کیونکہ کراچی شہر میں نادرا دفاتر پر شہریوں کا بے تحاشا رش ہوتا ہے، معمولی سی معلومات حاصل کرنے کے لیےگھنٹوں لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔
ایک دوست کے بتانے پر اویس نے رات گئے نادرا میگا سینٹر جانے کا فیصلہ کیا، اویس رات گئے نارتھ ناظم آباد میں نادرا کے میگا سینٹر پہنچے اور دو گھنٹے انتظار کے بعد ٹوکن حاصل کیا اور اپنی باری کے انتظار میں بیٹھ گئے۔
کچھ دیر بعد ان کا نمبر آیا تو انہوں نے نادرا عملے کو اپنے فِنگر پرنٹس کے بارے میں بتایا، عملے نے ان کے کیس کو دیکھتے ہوئے ایک سرٹیفیکیٹ جاری کیا۔
نادرا عملے کے مطابق اس سرٹیفیکیٹ کے ذریعےاویس اپنا بائیومیٹرک کا مسئلہ حل کرسکیں گے اور سم اپنے نام رجسٹر کروا سکیں گے۔
ترجمان نادرا صباحت علی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بزرگ افراد اور ایسے شہری جنہیں بائیومیٹرک میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُن کے لیے ایک آسان سا پروسس ترتیب دیا گیا ہے۔
’نادرا رجسٹریشن پالیسی کی 13 ویں شق کے مطابق ان شہریوں کو بائیومیٹرک سے استثنیٰ دیا جاتا ہے۔ فِنگر پرنٹس کی تصدیق نہ ہونے والے شہریوں کو سرٹیفیکیٹ جاری کیا جاتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی شناخت اور تصدیق کا عمل مکمل کروا سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس حوالے سے نادرا نے اپنی ویب سائٹ پر تفصیلات بھی آویزاں کر رکھی ہیں جہاں سے شہری اس بارے میں مزید معلومات بھی حاصل کرسکتے ہیں۔‘
یاد رہے کہ اس اہم مسئلے پر رواں ماہ پاکستان کے سب بڑے تجارتی چیمبر ایوان صنعت و تجارت کی جانب سے بھی وزیراعظم پاکستان کو ایک خط لکھا گیا۔
خط میں حکومت سے استدعا کی گئی ہےکہ بائیومیٹرک کے ذریعے تصدیقی عمل میں مشکلات کا سامنا کرنے والے بزرگ افراد سمیت دیگر شہریوں کے لیے تصدیقی عمل کو آسان بنایا جائے۔
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر جاوید بلوانی نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ بزرگ شہریوں سمیت جِلدی امراض میں مبتلا افراد کو بائیومیٹرک کرانے کے لیے فِنگر پرنٹس کے بجائے چہرے کے نظام کے ذریعے شناخت کی سہولت فراہم کی جائے۔