یونیفارم لیبر سکیل، پنجاب کی جیلوں میں ہُنرمند قیدیوں کو کیا سہولیات ملیں گی؟
یونیفارم لیبر سکیل، پنجاب کی جیلوں میں ہُنرمند قیدیوں کو کیا سہولیات ملیں گی؟
بدھ 30 اکتوبر 2024 5:47
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
پہلے عدالت سے قید بامشقت پانے والے مجرموں کے حوالے سے یہ معیار طے نہیں تھا کہ ان سے ایک روز میں کتنی مشقت کروائی جائے۔ (فائل فوٹو: ایکس)
پنجاب حکومت نے جیلوں میں تمام قیدیوں سے یکساں سلوک کے لیے یونیفارم لیبر سکیل متعارف کروایا ہے جس کے تحت صوبے بھر کی مختلف جیلوں میں قیدی ایک مخصوص پیمانے کے تحت کام کریں گے۔
ترجمان محکمۂ داخلہ پنجاب نے اس حوالے سے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ’پاکستان پرزنرز رولز 1978 کے تحت جیل میں مشقت کرنے والا قیدی کم از کم ایک آزاد مزدور جتنا کام کرنے کا پابند ہوگا۔‘
محکمۂ جیل خانہ جات نے قیدیوں کے لیے قالین، صندوق، لوہے کی چارپائی، قیدیوں کا لباس، دری، کمبل، کوٹ اور کاٹن نوار کی تیاری سے متعلق روزانہ کے اہداف بھی مقرر کیے ہیں۔
قبل ازیں عدالت سے قید بامشقت پانے والے مجرموں کے حوالے سے یہ معیار طے نہیں تھا کہ ان سے ایک روز میں کتنی مشقت کروائی جائے جس کے باعث تمام قیدیوں سے مساوی سلوک روا رکھنا ممکن نہیں تھا، اور جیلوں میں قائم انڈسٹریز بہتر انداز میں کام نہیں کر پا رہی تھیں جس کے باعث حکومت نے اب جیلوں میں یونیفارم لیبر سکیل متعارف کروایا ہے۔
پنجاب کی جیلوں میں قید بامشقت پانے والے قیدی
اُردو نیوز کی جانب سے محکمۂ جیل خانہ جات سے قیدیوں کی تعداد اور ان کی جانب سے بنائی جانے والی مصنوعات سے متعلق اعداد و شمار حاصل کیے گئے ہیں جن کے مطابق ’اس وقت پنجاب بھر کی جیلوں میں قید بامشقت پانے والے قیدیوں کی تعداد کم و بیش 11020 ہے۔‘
محکمۂ جیل خانہ جات کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق جیل میں قائم فیکٹریز میں 4521 قیدی کام کر رہے ہیں جن میں تربیت یافتہ و غیرتربیت یافتہ قیدی شامل ہیں۔ اسی طرح 2754 قیدی کچن اسیران کے طور پر قید بامشقت کی سزا کاٹ رہے ہیں جبکہ 459 قیدی ووکیشنل ٹریننگ کے کورسز کر رہے ہیں۔ 3489 قیدی ایسے ہیں جن میں اساتذہ، صفائی ستھرائی کرنے والے اور باغبان شامل ہیں جبکہ 421 قیدی مذہبی و رسمی تعلیم سے منسلک ہیں۔
کام کرنے والے قیدیوں کی سزا میں کتنی کمی ہوتی ہے؟
محکمۂ جیل خانہ جات کے مطابق ان تمام قیدیوں کو اپنی اپنی مہارتوں کے مطابق کام سونپے جاتے ہیں جس کی بدولت ان کی سزاؤں میں تحفیف کی جاتی ہے۔
محکمۂ جیل خانہ جات پنجاب نے بتایا کہ ’قیدیوں کو جیل مینول کے رول نمبر 204 کے تحت مشقت کے عوض سزا میں ماہانہ کمی یا معافی دی جاتی ہے۔ جیل کی فیکٹریز میں کام کرنے والے قیدیوں کو ماہانہ پانچ یوم، کچن اسیران کو سات یوم، اساتذہ اور خاکروب کو آٹھ یوم جبکہ متفرق مشقتی کام کرنے والوں کو چھ یوم کی معافی دی جاتی ہے۔‘
محکمۂ جیل خانہ جات کے مطابق ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ میں قیدیوں کو دو فٹ بال سلائی کرنے کے عوض 150 روپے اور 60 دستانوں کی سلائی کے عوض 600 روپے روزانہ دیے جاتے ہیں۔
اسی طرح سینٹرل جیل لاہور میں فرنیچر بنانے کا کام شروع کیا جا رہا ہے جس میں ہنرمند قیدیوں کو روزانہ کی بنیاد پر 750 روپے دیے جائیں گے جبکہ 250 روپے حکومتِ پنجاب کے خزانے سے جمع کروائے جائیں گے۔ غیرہنرمند قیدیوں کو 375 روپے روزانہ دیے جائیں گے جبکہ 125 روپے حکومتِ پنجاب کے خزانے میں جمع ہوں گے۔
محکمۂ جیل خانہ جات کے مطابق مساوی لیبر سکیل کے تحت اب ایک ماہ تربیت کے بعد ایک قیدی دن میں لوہے کی دو چارپائیاں تیار کرے گا۔ اسی طرح دو ماہ کی تربیت کے بعد قیدی تین دن میں ایک کِٹ باکس صندوق تیار کرنے کا پابند ہو گا۔
’ایک ماہ تربیت حاصل کرنے والا قیدی دن میں دو انچ چوڑائی کی 25 فٹ کاٹن نوار تیار کرے گا۔ ایک ماہ تربیت یافتہ قیدی دن میں چھ فٹ لمبائی اور اڑھائی فٹ چوڑائی کی ایک دری تیار کرے گا۔ قیدی ایک ماہ تربیت کے بعد سات فٹ لمبی اور سوا چار فٹ چوڑائی کے تین کمبل اور اسی طرح دو ماہ تربیت کے بعد قیدی دن میں دو یونیفارم سوٹ سلائی کرے گا۔ دو ماہ تربیت حاصل کرنے والا قیدی دن میں یونیفارم کے کپڑے کی چھ میٹر بُنائی بھی کرے گا۔‘
نئے لیبر سکیل کے مطابق تین ماہ تربیت کے بعد قیدی دو دن میں وارڈز کی تین شرٹس اور تین پینٹس کی سلائی کرے گا۔
جیلوں میں قائم انڈسٹریز اور انتظامات
جیلوں میں قائم انڈسٹریز کے لیے یہ مساوی لیبر سکیل مارکیٹ سروے کے بعد تیار کیا گیا ہے۔ مساوی لیبر سکیل اور قیدیوں سے مزدوری سے متعلق ہدایات متعلقہ جیلرز کو جاری کر دی گئی ہیں۔
محکمۂ جیل خانہ جات کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق اس وقت جیلوں میں قالین بافی، کاٹن نوار، آہنی چار پائی، کٹ باکس، قیدیوں کے کپڑے، فرنیچر، وارڈر یونیفارم، قیدی دری نیلی، کمبل، برانڈ کوٹ، ٹف ٹائل، سلائی کڑھائی، فٹ بال سلائی، اور دستانے سلائی کرنے کا کام کیا جا رہا ہے۔
’ان میں سے زیادہ تر مصنوعات جیلوں میں بند قیدیوں اور جیل ملازمین کے استعمال میں آتی ہیں تاہم قالین اور فرنیچر بازار میں بھی فروخت ہوتے ہیں۔‘
اس حوالے سے محکمے نے جیلوں میں قیدیوں کی تربیت کے لیے انتظامات بھی کیے ہیں اور قالین بافی کے لیے قیدیوں کو باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے دو کارپٹ کنسلٹنٹ، وارڈر یونیفارم اور برانڈ کوٹ کی سلائی کے لیے سٹیچنگ سپروائزرز قیدیوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔‘
علاوہ ازیں تربیت یافتہ ہنرمند قیدی غیرتربیت یافتہ قیدیوں کی تربیت بھی کرتے ہیں۔
اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) انڈسٹریز برائے جیل خانہ جات ثاقب نذیر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’قیدیوں کی جانب سے بنائی گئی مصنوعات جیلوں سے باہر مارکیٹ میں نمائش کے لیے بھی پیش کی جاتی ہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’جیلوں میں قیدی قالین اور مختلف مصنوعات بناتے ہیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی مہارت سے فائدہ اٹھائیں، اس لیے ان کی بنائی ہوئی مصنوعات ہم قومی و بین الاقوامی نمائشوں میں بھی پیش کرتے ہیں تاکہ جیلوں میں قائم انڈسٹریز پروان چڑھیں۔ قیدی بین الاقوامی معیار کی مصنوعات بناتے ہیں جو مارکیٹ میں لانا وقت کی ضرورت ہے۔‘
محکمۂ جیل خانہ جات کے مطابق ان تمام مہارتوں کے علاوہ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی کی معاونت سے صوبے بھر کی 15 جیلوں میں قیدیوں کو فنی تربیت بھی دی جا رہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق سینٹرل جیل لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، ساہیوال، ملتان اور بہاولپور میں قیدیوں کو موٹرسائیکل مکینک کی تربیت بھی دی جا رہی ہے تاکہ جیلوں سے نکلنے کے بعد ان کی زندگی میں بدلاؤ آ سکے۔ اسی طرح اُن کی ویلڈرز، الیکٹریشنز، ہوم اپلائنسز ریپیئرر، ٹریکٹر میکینک، ڈومیسٹک ٹیلرز اور پلمبرز کے طور پر بھی تربیت کی جا رہی ہے۔
محکمۂ جیل خانہ جات نے مزید کہا کہ جیل فیکٹری میں مختلف مصنوعات کی تیاری کے بعد قیدی ناصرف کوئی نہ کوئی ہنر سیکھ جاتے ہیں بلکہ جیل میں ان کا رویہ بھی بہتر ہو جاتا ہے جبکہ رہائی کے بعد قیدی اپنے ہنر کے مطابق کام بھی کر سکتے ہیں۔