Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹرمپ کی جیت، کیا خان کے لیے بھی کھڑکی کھلے گی؟ اجمل جامی کا کالم

بائیڈن انتظامیہ نے عمران خان حکومت کو نظرانداز کیے رکھا، ایک فون کال کرنا بھی گوارا نہ کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ میں صدارتی انتخاب اور اس کے نتائج پر امریکہ کے علاوہ پاکستان میں بالخصوص گہری دلچسپی دیکھنے کو ملی۔ ٹرمپ بلا آخر فاتح قرار پائے۔ ڈیموکریٹس کی شکست کی وجوہات میں سے بطور سپر پاور امریکہ کا روس یوکرین جنگ، غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کو نہ روک پانا، غیر قانونی تارکین وطن کا ملک میں بے تحاشا اضافہ اور بے روزگاری جیسے سنجیدہ مسائل سے نمٹنے میں ناکامی ہے۔
ایک اور وجہ الیکشن سے عین قبل ڈیموکریٹس کی جانب سے امیدوار کی تبدیلی کو بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
لیکن ریپبلکن کے امیدوار ٹرمپ کی جیت کے لوازمات اس سے بھی دلچسپ ہیں۔ ٹرمپ ترقی کا نعرہ لگاتے ہیں۔ امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے، اپنے عوام کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور غیر قانونی تارکین وطن کے راستے کی دیوار بننے کا عزم دہراتے ہیں۔ اور یہی وہ دلفریب نعرے ہیں جو امریکی عوام بالخصوص سفید فام امریکیوں کو لبھاتے ہیں۔ کہانی لمبی نہ ہو، اس لیے ڈائریکٹ مدعے پر آتے ہیں۔ پاکستان کے عوام بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کے حمایتیوں کو اس الیکشن سے واحد امید یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر بن کر اپنے دوست عمران خان کی جیل سے رہائی کو ممکن بنائیں گے۔ یہ کیسے ہوگا، اس پر جانے سے پہلے ٹرمپ اور عمران خان کے عروج و زوال، اقتدار میں آنے اور بے دخلی جیسی مماثلتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
دونوں کے عروج و زوال کی کہانی ایک جیسی ہے۔ دونوں نے روایتی سیاست کو ترک کر کے غیر روایتی طرز کی سیاست کو پروان چڑھایا۔ مخالفین کو کرپشن زدہ قرار دیا۔ ڈیجیٹل میڈیا، سوشل میڈیا کو اپنے پروگرام کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا۔ دونوں نے الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ دونوں جماعتوں کے حمایتیوں نے پرتشدد مظاہرے کیے۔ دونوں رہنما جیل گئے، دونوں پر جان لیوا حملے ہوئے لیکن اس سے معجرانہ طور پر محفوظ رہے۔ دونوں کے خواتین سے متعلق سکینڈل سامنے آئے لیکن اس سے ان کی شہرت پر ذرا برابر فرق نہیں پڑا۔ دونوں رہنماؤں کی زندگیاں بہت مختلف رہیں، ایک سپورٹس سٹار رہے تو دوسرے بزنس میں چھائے رہے لیکن اس کے باوجود دونوں کے حالات زندگی میں حیرت انگیز مماثلتوں نے بہت سوں کو سوچنے پر مجبور کیا۔ بہت سے لکھاریوں نے اس پر لکھا بھی۔
ٹرمپ جیل سے باہر آگئے، امریکی عدلیہ نے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دی۔ وہاں الیکشن صاف شفاف ہوئے، پچھلی بار کی طرح دھاندلی کے الزامات نہیں لگے۔ اور یوں ٹرمپ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے 47ویں صدر بن کر جنوری 2025 میں عنان اقتدار سنبھال لیں گے۔

عمران خان اور ٹرمپ دونوں نے روایتی سیاست کو ترک کر کے غیر روایتی طرز کی سیاست کو پروان چڑھایا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری طرف ان کے دوست عمران خان کی کہانی ان سے بہت حد تک مماثلت رکھنے کے باوجود ذرا مختلف ہے۔
پاکستان میں جو بھی اقتدار سے نکلتا تھا اس کی واپسی بنا ڈیل مشکل ہوتی تھی، یہ پہلی بار ہے کہ ایک بندہ ڈیل نہ کرنے پر اڑا ہوا ہے۔ وہ جیل میں ہے۔ تحریک انصاف کے سپورٹرز نئے امریکی صدر سے مداخلت کی توقع کر رہے ہیں لیکن عمران خان کا ان کی جیت پر تبصرہ خاصا دلچسپ ہے۔ اڈیالہ جیل میں ان سے ملاقات کرنے والے تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان کے بقول عمران خان نے ٹرمپ کی جیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ میں جو بھی اقتدار میں آئے، ہماری توقع ان سے بس یہی ہے کہ وہ نیوٹرل رہے۔ یہ ردعمل ایک سٹیٹس مین کی جانب سے بہت نپا تلا ہے۔ ‘
دوسری طرف ہم زمینی حقائق کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ پہلے افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا کا معاملہ تھا جہاں سپر پاور دو ٹریلین ڈالر جھونکنے کے باوجود مطلوبہ نتائج کے حصول سے کوسوں دور تھا۔ اس وقت صدر ٹرمپ نے اپنی طبیعت کے عین مطابق جلد بازی میں اںخلا کا فیصلہ کیا تو کوئی بھی اس کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس کے باوجود عمران خان حکومت نے ان کا بہت ساتھ دیا۔ کیا اب بھی امریکہ کے نزدیک پاکستان کی اہمیت ویسی ہی ہے؟ ٹرمپ اس بات سے بے خبر نہیں کہ عمران خان اوورسیز پاکستانیوں میں بے حد مقبول ہیں، امریکہ میں موجود ان کے حمایتیوں نے بڑی تعداد میں ٹرمپ کو ووٹ ڈالا ہے۔ ان کی انتخابی مہم میں خان کی تصویر بھی جا بجا دکھائی دی۔ چنانچہ اس کے امکانات روشن ہیں کہ دیر سویر سے ہی سہی اس مدعے پر بات ہو سکتی ہے.

عمران خان کی کہانی ان سے بہت حد تک مماثلت رکھنے کے باوجود ذرا مختلف ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بائیڈن انتظامیہ نے عمران خان حکومت کو نظرانداز کیے رکھا، ایک فون کال کرنا بھی گوارا نہ کی۔ اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان میں تحریک عدم اعتماد کا الزام بھی عمران خان نے بائیڈن انتظامیہ پر لگایا۔
’جو کروا رہا ہے امریکہ کروا رہا ہے‘، پاکستان میں اس جملے کی ایک تاریخ رہی ہے۔ یعنی پاکستانیوں کی اکثریت اس مفروضے پر حقیقت کی طرح یقین رکھتی ہے کہ پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات میں امریکہ مداخلت کرتا رہا ہے۔ لہذا جب عدم اعتماد کے نتیجے میں خان صاحب وزیراعظم ہاؤس سے بے دخل ہوئے تو انہوں نے سائفر ایشو کو ہوا دی اور اپنی حکومت کے خاتمے کا براہ رست ذمہ دار امریکہ کو قرار دیا۔
چنانچہ اگر پاکستانیوں کی بڑی تعداد پاکستان میں کسی بڑی تبدیلی کو امریکہ میں حالیہ تبدیلی سے جوڑیں تو اس میں اچنبھا نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان میں تحریک انصاف کے ساتھ پیش آنے والے معاملات پر جب کبھی وائٹ ہاؤس ترجمان، امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان سے سوال پوچھا جاتا تھا تو ترجمان گول مول جواب دے کر جان چھڑا لیتا تھا۔ لیکن جس طرح کا ٹرمپ کا مزاج ہے، ان کا بانکپن ان سے کچھ بھی کروا سکتا ہے۔ اپنے پچھلے دور میں انہوں نے روس، کوریا سے تعلقات بڑھائے، نیٹو کی امداد کم کی۔ ایسے کئی اقدامات جو امریکی اسٹیبلشمنٹ سے بالاتر ہو کر کیے۔ لہذا نئی انتظامیہ کے ترجمان سے اب اگر پاکستان میں سیاسی و انسانی حقوق سے متعلق سوال ہوا تو اب جواب آ سکتا ہے، ایسا تبصرہ جو پاکستان میں سیاسی بھونچال پیدا کرے۔

شیئر: