خاتون کو ہراساں کرنے پر پروفیسر کو 10 لاکھ جرمانہ، ملازمت سے برطرف
وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت نے ملزم کو اس کے عہدے سے برخاست کرنے کا حکم دیا۔ فائل فوٹو: اے پی پی
وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت (فوسپا) نے کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے مقدمے میں وفاقی اردو یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن کے سربراہ کو نوکری سے برخاست کر کے 10 لاکھ کا جرمانہ عائد کر دیا ہے۔
پیر کو جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق فوسپا نے عروج ملک بنام ڈاکٹر حافظ اسحاق کے کیس میں فیصلہ سنایا۔
’یہ کیس پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں خواتین کو ہراساں ہونے سے بچانے اور جواب دہی کو یقینی بنانے کے لیے فوسپا کے غیرمتزلزل عزم کو اجاگر کرتا ہے۔‘
وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت (فوسپا) نے ملزم کو اس کے عہدے سے برخاست کرنے کا حکم دیا اور 10 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا جس میں سے 8 لاکھ روپے شکایت کنندہ کو اور 2 لاکھ روپے ریاستی خزانے میں جمع کیے جائیں گے۔
وفاقی اردو یونیورسٹی آف سائنس و ٹیکنالوجی کی لیکچرر عروج ملک نے محکمہ بزنس ایڈمنسٹریشن کے سربراہ ڈاکٹر حافظ اسحاق کے خلاف باضابطہ شکایت درج کروائی، جس میں کئی برس تک بار بار جنسی ہراسانی کا حوالہ دیا گیا۔
بیان کے مطابق ’اس مسئلے کو غیر رسمی طور پر حل کرنے کی کوششوں کے باوجود ہراساں کرنا جاری رہا، جس سے عروج ملک کو قانونی نظام کے ذریعے انصاف حاصل کرنے پر مجبور کیا گیا۔‘
اس کیس کو ابتدائی طور پر ادارہ جاتی سطح پر حل کرنے کی کوشش کی گئی مگر یونیورسٹی کی انکوائری کمیٹی عروج ملک کی شکایت پر مناسب طریقے سے کارروائی کرنے میں ناکام رہی۔ انکوائری کے عمل میں تاخیر اور اعتماد کی کمی سے ناخوش عروج ملک نے فوسپا سے رابطہ کیا۔
معاملے کی مکمل جانچ پڑتال کے بعد جس میں عروج ملک کی غیرچیلنج شدہ شہادت ریکارڈ کرنا بھی شامل ہے۔ فوسپا نے ڈاکٹر اسحاق کے اقدامات کو کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ کے قانون مجریہ 2010 کے تحت ہراساں کرنے کے تحت پایا۔ ملزم نے جسمانی طور پر ہراساں کرنے کا اعتراف کیا اور شکایت کنندہ سے ایسا کرنے پر معافی مانگی۔
وفاقی اردو یونیورسٹی آف سائنس و ٹیکنالوجی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان جرمانوں کا نفاذ کرے اور 5 دسمبر 2024 تک فوسپا کو تعمیل کی رپورٹ پیش کرے۔