Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بی ایل اے قومی سلامتی کے لیے ٹی ٹی پی کی طرح ’بڑا سکیورٹی تھریٹ‘: پاکستانی تھنک ٹینک

گزشتہ ماہ کے دوران بی ایل نے 12 حملے کیے جن میں 45 افراد ہلاک ہوئے(فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے ایک تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹیڈیز کا کہنا ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرح کا ’بڑا سکیورٹی تھریٹ‘ بن رہے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی(بی ایل اے) نے گزشتہ ماہ متعدد افراد کو قتل کیا جن میں سب سے مہلک حملہ کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر کیا گیا۔
بلوچستان کی پاکستان سے آزادی کے لیے سرگرم علیحدگی پسند تنظیم بی ایل اے نے گزشتہ ماہ صوبے میں تعینات مسلح فورسز کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا تھا۔
جمعرات کو پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی ایک رپورٹ سامنے آئی جس میں بی ایل اے کے حملوں میں شدت اور تسلسل کو ایک ’نمایاں تبدیلی‘ کے طور پر بیان کیا گیا اور کہا گیا کہ اس گروپ کی آپریشنل حکمت عملی اور صلاحتیوں کے پیش نظر حکومت کو اپنے طریق کار کی تجدید کی ضرورت ہو گی۔
رپورٹ کے مطابق نومبر کے مہینے میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں 61 حملے ہوئے جو اکتوبر کی نسبت 27 فیصد زیادہ ہیں۔ اکتوبر میں کیے گئے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 100 تھی جو نومبر میں 169 تک پہنچ گئی۔
گزشتہ ماہ کے دوران بی ایل نے 12 حملے کیے جن میں 45 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد گزشتہ ماہ میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں سے زیادہ ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ایک تجزیہ کار صفدر سیال کا کہنا ہے کہ بی ایل اے ٹی ٹی پی کی حکمت عملی سے سیکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان دونوں کالعدم تنظیموں کے درمیان کسی قسم کی نظریاتی مماثلت نہیں ہے۔ بی ایل اے زیادہ سے زیادہ افراد کو نشانہ بنانے کے لیے خودکش دھماکوں سمیت مختلف طریقوں کو بروئےکار لا رہی ہے۔‘
صفدر سیال نے اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ ‘یہ اب چار پانچ برس پہلے والی بی ایل اے نہیں ہے۔ وہ اب بہت ہوشیاری سے اپنے حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، ان کے اہداف اور طریق کار بدل چکے ہیں۔ اب جو خطرہ پیدا ہوا ہے، حکومت کے لیے اس سے نمٹنا مشکل ہو گا۔‘
پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان میں بلوچ قوم سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت کی جانب سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ اس صوبے میں جبری گمشدیوں، ماورائے عدالت ہلاکتوں اور مقامی وسائل کے استحصال کی شکایات بھی ہیں۔

علیحدگی پسند تنظیم بی ایل اے نے گزشتہ ماہ صوبے میں تعینات مسلح فورسز کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں جو لوگ صوبے کے قدرتی وسائل میں سے بڑے حصے کی مانگ کرتے ہیں، وہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے لاپتا کر دیے جاتے ہیں۔
صفدر سیال کا کہنا ہے کہ بی ایل اے نے عوامی مسائل کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر اس صوبے میں حمایت بھی حاصل کی ہے۔
اس علیحدگی پسند گروپ کا موقف ہے کہ ان کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کا تعلق حکومت کے ساتھ تعاون کرنے والوں یا صوبہ پنجاب کے افراد سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ بی ایل اے اب نوجوانوں کو بھرتی کر رہی ہے جس کے سدباب کے لیے حکومت کو بلوچستان کے لوگوں کے ’دل اور دماغ‘ جیتنا ہوں گے۔

نومبر کے مہینے میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں 61 حملے ہوئے جو اکتوبر کی نسبت 27 فیصد زیادہ ہیں(فائل فوٹو: اے ایف پی)

حکومت کی جانب سے اس صورتحال پر تبصرے کے لیے کوئی عہدے دار میسر نہیں تھا تاہم بلوچستان حکومت کے سابق وزیراطلاعات جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ ریاست نے بی ایل اے کی اہم عمارات، فوجی تنصیبات اور اہلکاروں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کو کچلا ہے، اس لیے وہ اب سافٹ اہداف کی جانب متوجہ ہے۔
جان اچکزئی نے کہا کہ ’بی ایل اے ایک ٹیکٹیکل خطرہ جبکہ ٹی ٹی پی ایک سٹرٹیجک تھریٹ ہے۔ ان دونوں کے درمیان کوئی موازنہ نہیں ہے، بی ایل اے والے زیادہ بے رحم ہیں، وہ ہیڈلائنز بناتے ہیں۔‘
’بی ایل اے کا ریلوے سٹیشن حملہ ایک ایسی جگہ پر حملہ تھا جہاں سکیورٹی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ وہ اب مرکزی شاہراہوں پر نکل آتے جہاں سکیورٹی اہلکار نہ ہونےکے برابر ہوتے ہیں۔‘

شیئر: