وزیراعلیٰ بلوچستان کی مدت، ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں ’اڑھائی، اڑھائی سال کا معاہدہ‘ ہے؟
وزیراعلیٰ بلوچستان کی مدت، ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں ’اڑھائی، اڑھائی سال کا معاہدہ‘ ہے؟
بدھ 11 دسمبر 2024 11:29
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
جام کمال کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پی پی کے درمیان حکومت کے حوالے سے فارمولا طے پایا تھا (فوٹو: اے پی پی)
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی کو صوبے کی حکومت سنبھالے ابھی نو ماہ ہی ہوئے ہیں لیکن صوبے میں اتحادیوں کے درمیان شراکت اقتدار پر ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔
یہ بحث بلوچستان میں حکومت کی پانچ سالہ مدت کی تقسیم سے متعلق معاہدے کی بازگشت کے بعد ہو رہی ہے جس کا دعویٰ مسلم لیگ ن کی جانب سے سامنے آیا ہے۔
مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر تجارت اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ایک انٹرویو میں واضح انداز میں کہا کہ ’بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے پیپلز پارٹی اور ملسم لیگ ن کے درمیان اڑھائی، اڑھائی سال کا فارمولہ طے ہوا تھا۔‘
ان کے بقول ’اتفاق اسی بات پر ہوا تھا کہ (وزارت اعلی کی) پہلی مدت پی پی پوری کرے گی اس کے بعد مسلم لیگ ن کی باری آئے گی۔'
تاہم پیپلز پارٹی کے رہنما سابق وزیراعلیٰ سینیٹر میر عبدالقدوس بزنجو کا کہنا ہے کہ ان کی نظروں سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں گزرا۔ اڑھائی، اڑھائی سالہ معاہدے کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی بلوچستان میں اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرے گی۔
عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان کے موجودہ حالات اس طرح کے کسی تجربے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے حالات میں اس طرح کی باتیں نہیں کرنی چاہییں۔ سرفراز بگٹی صوبے کو بہتر انداز میں چلانے کی کوشش کررہے ہیں ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔‘
فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دو بڑی جماعتیں بن کر سامنے آئی تھیں۔ دونوں کی نشستوں کی تعداد تقریباً برابر تھی۔ دونوں جماعتوں نے تیسری بڑی جماعت جے یو آئی یا باقی چھوٹی جماعتوں سے اتحاد کے بجائے مل کر حکومت بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس سلسلے میں فروری کے آخر میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کے درمیان اسلام آباد میں ملاقاتوں کے بعد شراکت اقتدار کا فارمولہ طے پایا تھا جس کے تحت وزارت اعلیٰ پیپلز پارٹی کو جبکہ گورنر، اسپیکر اور سینیئر وزیر کے عہدے مسلم لیگ ن جبکہ وزارتیں برابر تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا۔
حکومت بننے کے چند ماہ بعد مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے گورنر بلوچستان شیخ جعفر مندوخیل نے پہلی بار بیان دیا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان حکومت سازی کے لیے اڑھائی، اڑھائی سالہ فارمولہ طے پایا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار رشید بلوچ کہتے ہیں کہ ’اس فارمولے سے متعلق پہلے نجی محفلوں میں باتیں ہو رہی تھیں۔ پہلی بار پبلک میں گورنر بلوچستان جعفرمندوخیل نے چند ماہ قبل یہ بات کہی تھی ۔ اب جام کمال اور دوسرے مسلم لیگی رہنما ہیں جنہوں نے اس معاہدے کا کھل کر ذکر کیا۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے لوگ اس کی تردید کر رہے ہیں ایسے میں بلوچستان کے لوگ تذبذب کا شکار ہیں کہ ایسا کوئی معاہدہ موجود ہے بھی یا نہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’جہاں تک میری معلومات ہیں دونوں جماعتوں کے درمیان ایسا کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا۔ اگر زبانی وعدہ ہوا ہے تو وہ الگ بات ہے۔ اگر واقعی کوئی معاہدہ موجود ہے تو پھر مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو سامنے لانا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی چیئرمین سینٹ سیدال ناصر نے بھی اس معاہدے سے لا علمی کا اظہار کیا ہے جو بلوچستان میں نواز شریف کے سب سے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ ملسم لیگ ن کے اندر بھی اس معاملے پر کنفیوژن موجود ہے۔
سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ ’کچھ نہ کچھ ہے ورنہ جام کمال جیسا ذمہ دار شخص ایسی بات نہیں کہتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اڑھائی اڑھائی سالہ مدت کے معاہدے سے متعلق کچھ عرصہ پہلے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سے دورہ کوئٹہ کے دوران بھی صحافیوں نے پوچھا مگر انہوں نے اس سوال کو نظرانداز کیا۔ اگر کچھ نہیں ہوتا تو وہ واضح تردید کر دیتے۔ اس کا مطلب ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان کچھ نہ کچھ طے ہوا ہے۔‘
ان کے مطابق ’سابق وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی تردید کی اس لیے زیادہ اہمیت نہیں کہ ان کے پاس پیپلز پارٹی میں کوئی عہدہ موجود نہیں۔ وہ حکومت سازی کے عمل میں شاید شریک نہیں تھے، اس لیے لا علم ہوں گے ۔ ان کی جگہ بلاول بھٹو کا ترجمان یا کوئی دوسرا قریبی شخص بھی تردید کرے تو زیادہ اہم ہو گا۔‘
جام کمال خان نے معاہدے کی موجودگی سے متعلق بات سینیئر صحافی سید علی شاہ کو انٹرویو میں کہی۔
سید علی شاہ کہتے ہیں کہ ’جام کمال خان ایک ذمہ دار شخصیت، وفاقی وزیر اور ن لیگ کے سینیئر رہنما ہیں۔ ان کے بیان کی اہمیت ہے۔ اس سے پہلے ن لیگ سے تعلق رکھنے والے گورنر بلوچستان جعفر مندوخیل نے بھی ایسی بات کہی تھی مگر اس معاملے پر میڈیا پر پہلا اور واضح بیان اب جام کمال کا سامنے آیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس معاہدے کی بازگشت تو ہم شروع سے ہی سن رہے تھے مگر مسلم لیگ ن اس پر خاموش تھی۔ اب اچانک یہ بات کیوں کہی جا رہی ہے اس نے سوالات کو جنم دیا ہے۔ یقیناً ان بیانات کا دونوں جماعتوں کے تعلقات پر اثر پڑے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن اور نیشنل پارٹی کے درمیان ایک دہائی قبل اس طرز کے معاہدے کی بھی پہلے تردید کی جاتی رہی ہے بعد میں ہم نے معاہدے کو حقیقت بنتے اور اس پر عملدرآمد ہوتا دیکھا۔
شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ ’بلوچستان میں پانچ سالہ مدت کی تقسیم کا یہ پہلا تجربہ نہیں ہو گا۔ اس سے پہلے دو مرتبہ یہ تجربہ آزمایا جا چکا ہے ۔ 90 کی دہائی کے آخر میں نواب اکبر بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی اور سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی کے درمیان ایسا فارمولہ بنا تھا مگر اس پر عملدرآمد سے پہلے ہی اختر مینگل کی حکومت ختم کر دی گئی پھر ملک میں مارشل لا لگ گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دوسری مرتبہ 2013 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن اور نیشنل پارٹی کے درمیان ایسا معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت مسلم لیگ ن کے اکثریت میں ہونے کے باوجود پہلے اڑھائی سال نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بنے۔‘
ان کے بقول ’معاہدے پر عملدرآمد میں تاخیر ہوئی تو نواب ثنا اللہ زہری، سرفراز بگٹی اور یہی لوگ تھے جنہوں نے احتجاج کیا اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو فیصلہ کرنے پر مجبور کرتے رہے۔‘
بلوچستان میں اڑھائی سال بعد حکومت کی قیادت پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ ن کو منتقل ہوتی ہے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’بلوچستان میں کبھی کسی جماعت کو حکومت سازی کے لیے مطلوبہ اکثریت نہیں ملی اس لیے مخلوط حکومتیں بنتی رہی ہیں اور موجودہ حکومت بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان اتحاد کی صورت میں بنی ہے۔ ایسی حکومتیں ہمیشہ مشکلات کا شکار رہتی ہیں انہیں کام کرنے اور بڑے فیصلے لینے میں دقت ہوتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ بلوچستان سے متعلق کیا فیصلہ کرتی ہے۔ ہوسکتا ہے مقررہ مدت کے بعد مسلم لیگ ن کو موقع مل جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو ہی سمجھوتے کے تحت آخری اڑھائی سال بھی حکومت چلانے کا موقع دیا جائے۔‘
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق ’مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے علاوہ بھی ایک قوت ہے جس کا بلوچستان کی فیصلہ سازی میں اہم کردار ہے وہ چاہے تو کسی معاہدے اور اس میں طے کی گئی مدت کے بعد بھی سرفراز بگٹی وزیراعلیٰ برقرار رہ سکتے ہیں اور چاہے تو اس سے پہلے بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔‘
سید علی شاہ کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان میں حکومتیں ہمیشہ عدم استحکام کا شکار رہی ہیں۔ جام یوسف واحد وزیراعلیٰ تھے جنہوں نے مدت پوری کی اس کے بعد کبھی گورنر راج، کبھی عدم اعتماد اور کبھی کسی دوسری وجہ سے وزیراعلیٰ اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکے اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بلوچستان میں کسی بھی وقت کچھ بھی ممکن ہے۔‘
تجزیہ کار رشید بلوچ کہتے ہیں ہیں کہ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے گورنر اور اسی جماعت کے کچھ ارکان وزیراعلیٰ سے خوش نہیں مگر اس کے باوجود مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان بلوچستان میں اب تک کوئی بڑے مسائل نہیں بنے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’بلوچستان میں حکومت کا سارا دارومدار مرکز میں دونوں جماعتوں کے تعلقات پر ہے جب تک مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کو پیپلز پارٹی کا کندھا میسر ہے تب تک مسلم لیگ ن بلوچستان میں اپنی جماعت کے لوگوں کی بات زیادہ نہیں سنے گی۔
ان کے بقول ’دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان بیان بازی ہوتی رہے گی، مگر اس سے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ البتہ پیپلز پارٹی کو اپنے ہی وزیراعلیٰ سے کوئی مسئلہ ہوا تو وہ تبدیلی لا سکتی ہے۔‘