Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آن لائن لُڈو کی لڑائیاں، ’گیم کھیلتے کھیلتے اپنی زندگی کے ساتھ ہی گیم ہو گئی‘

لڈو گیم کے ’کوائنز مافیا‘ کی باہمی لڑائی کی وجہ سے سینکڑوں افراد کی زندگیاں برباد ہو چکی ہیں (فائل فوٹو: آئی سٹاک)
’میں لڈو کھیلتے کھیلتے ایک کلب کے مالک سے مانوس ہو گئی۔ اُس نے اپنی باتوں سے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ ہمارے درمیان ہر طرح کی گفتگو ہونے لگی جس میں آڈیو ویڈیو کالز، میسیجز اور تصاویر کا تبادلہ بھی شامل تھا۔
پھر ایک دن معلوم ہوا کہ ہماری گھنٹوں پر محیط آڈیو، ویڈیو کالز اور میرے موبائل میں موجود تمام ڈیٹا ہیک کر لیا گیا ہے۔ اس میں سے کچھ فیس بک پر ایک گروپ میں پوسٹ کیا گیا اور لکھا گیا کہ یہ تو ابھی ٹریلر ہے۔‘
بعدازاں مجھ سے رابطہ کر کے کہا گیا کہ جس کے ساتھ میری گفتگو ہو رہی تھی، اسے برباد کرنے میں ساتھ دوں اور بات نہ ماننے پر سب کچھ لیک کرنے کی دھمکی دی گئی۔ پھر مجھے اندازہ ہوا کہ گیم کھیلتے کھیلتے اپنی زندگی کے ساتھ ہی گیم ہو گئی ہے۔‘
یہ بظاہر ہیکنگ کی ایک معمولی سی کہانی محسوس ہوتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ یہ کہانی اِن دنوں روایتی کھیل لڈو کی آن لائن گیم سے شروع ہوتی ہے جس کے ’مافیا‘کی باہمی لڑائی کی وجہ سے سینکڑوں لوگوں کی زندگیاں برباد ہو چکی ہیں۔ 
یہ کہانی گجرات سے تعلق رکھنے والی 32 برس کی اقرا منشا (فرضی نام) کی ہے۔ انہوں نے اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’2019 میں اپنی کزن کے کہنے پر میں نے گیم کھیلنا شروع کی۔ ابتدا میں تو یہ روایتی لڈو گیم کی طرح کی ہی ایک گیم تھی لیکن پھر اس میں جیمز اور کوائینز کی سمجھ آنے لگی۔
گیم میں مہارت حاصل ہوئی تو کلب کی رُکن بھی بن گئی۔ میرا نام لڈو کی دنیا کے بہترین کھلاڑی کے طور پر لیا جانے لگا۔ لوگوں کی خواہش ہوتی کہ میں ان کے ساتھ پرائیویٹ گیم کھیلوں جہاں گپ شپ بھی ساتھ ساتھ چلتی رہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’میں نے کلب کے اندر جیتنا شروع کیا تو ریکارڈ پر ریکارڈ بناتی گئی۔ جب بھی کوئی لیگ جیتتی تو فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ پر سٹوری لگا کر خوب داد سمیٹتی، یوں لڈو کے نام پر بنے فیس بک گروپس میں بھی میرے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔‘

آن لائن لڈو کھیلنے کے دوران پلیئرز کے درمیان ذاتی رابطے بھی قائم ہو جاتے ہیں (فائل فوٹو: جیوجو سٹوڈیو) 

’شہرت کا ایسا چسکا لگا کہ میں اپنی ذمہ داریاں بھول کر ہمہ وقت گیم کھیلنے لگی۔ یہاں تک کہ ماں باپ بہن بھائیوں کے بیچ بیٹھ کر بھی گیم کھیلتی رہتی اور حقیقت کی دنیا سے بے خبر ہو گئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’گیم میں غرق ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں اپنی زندگی کے ماضی کے کچھ واقعات سے پیچھا چھڑانا چاہتی تھی۔ میں جب تک گیم کھیلتی تو ان واقعات کو بھول جاتی۔ اس طرح مجھے محسوس ہوا کہ لڈو سے میرا ڈپریشن کم ہوتا ہے یا کم از کم میرا اس سے دھیان بٹا رہتا ہے۔ اس لیے میں بس جیمز اور کوائنز جمع کرنے میں مگن رہتی اور اسی کو حقیقی دنیا تصور کرنے لگی۔‘ 
گیم میں جوں جوں آگے بڑھیں تو راستے کھلتے جاتے ہیں اور مزید آگے بڑھنے کے طریقے بھی پتہ چلتے ہیں۔ لڈو میں بہت سے کلب بنے ہوئے ہیں جہاں روزانہ، ہفتہ وار اور ماہانہ بنیادوں پر لیگز کا انعقاد ہوتا ہے، وہیں ان سے اوپر ایک مافیا ہے جو ان کلبز کے  ارکان کو بوقت ضرورت کوائنز بیچتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آٹو پلیئرز بھی فراہم کرتا ہے جو زیادہ سے زیادہ کوائنز جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس عمل سے وہ روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں روپے کماتے ہیں۔ 
اقرا منشا کہتی ہیں کہ ’مجھے کبھی کوائنز یا پی سی خریدنے کی ضرورت تو نہیں پڑی لیکن لڈو کھیلتے کھیلتے کوائنز بیچنے والے ایک کلب کے مالک سے میری دوستی ہو گئی۔ یہ دوستی ہر گزرتے دن کے ساتھ آگے بڑھتی گئی اور ہم آن لائن تعلق میں ہی ساری حدیں پار کرتے گئے۔‘

آن لائن لڈو کھیلنے والوں کے موبائل سے ڈیٹا چوری کرنے کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں (فائل فوٹو: ڈیجیٹل رائٹس مانیٹر)

انہوں نے بتایا کہ ’مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کا یہ کاروبار دراصل کسی اور کا بھی کاروبار ہے جس کے باعث ان کی آپس میں ڈیجیٹل دشمنی ہے۔ ان کے مخالف نے لڈو کی دنیا میں کلون متعارف کرایا، جس سے آپ کو گیم کھیلنے کے لیے ایک فیک آئی ڈی اور کھلاڑی میسر آتا ہے۔ جس نے بھی وہ کلون اپنے پاس ڈاؤن لوڈ کیا تو ان کو اس کے موبائل تک رسائی مل گئی۔‘ 
’اس سے یہ ہوا کہ گروپس میں کچھ لوگوں کی آڈیوز ویڈیوز لیک ہونا شروع ہو گئیں۔ لیکن لوگ اس پر ایک آدھ دن بات کرتے پھر خاموش ہوجاتے۔ کچھ ہی دن گزرے ہوں گے کہ میں نے محسوس کیا کہ میرا فون از خود آپریٹ کر رہا ہے۔ میں نے اسے تکنیکی خرابی سمجھا لیکن اگلے ہی دن گروپ میں میری اپنے کلب کے مالک کے ساتھ ہونے والی رومانوی گفتگو کا کلپ اَپ لوڈ کر کے لکھا گیا کہ یہ تو ابھی ٹریلر ہے۔‘ 
اقرا منشاء کے مطابق یہ لمحہ میرے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔ پھر میرے واٹس ایپ پر ہماری گھنٹوں پر مشتمل آڈیو وڈیو کالز، تصاویر اور فیملی ڈیٹا بھیجا گیا اور مجھ سے کہا گیا کہ اُن کی ہدایات کے مطابق کام کروں اور جو وہ کہیں گے وہی کروں۔ اس سے کلب کا مالک جو میرا دوست بھی تھا، اس کی زندگی اور کاروبار دونوں تباہ ہوجاتے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’مجھے انکار کی صورت میں یہ سب کچھ میرے بھائیوں، والد اور دیگر رشتہ داروں کو بھجوانے کی دھمکی دی گئی کیوں کہ ان سب کے ناصرف نمبرز ان کے پاس جا چکے تھے بلکہ وہ سب کے بارے میں تمام معلومات حاصل کر چکے تھے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’مجھے معلوم ہو گیا کہ میں ان کلب مالکان کی ذاتی مخالفت کی بھینٹ چڑھ چکی ہوں اور اب میرے پاس صرف موت ہی رسوائی سے بچنے کا واحد راستہ ہے۔ ایف آئی اے میں شناخت چھپا کر درخواست دینے کی کوشش کی لیکن وہاں سے جواب ملا کہ ایسا کوئی آپشن دستیاب نہیں ہے۔‘
’میرے ذہن میں بلیو وہیل سکینڈل گھومنے لگا اور میں نے سوچا کہ جان دے کر باقی لوگوں کو بچانے کی کوشش کرتی ہوں تو میں نے تھرمامیٹر توڑ کر اس میں موجود پارہ نگل لیا اور ہسپتال پہنچ گئی۔ جان تو بچا لی گئی لیکن اندر سے ٹوٹ چکی ہوں۔ جس ڈپریشن سے نکلنے کے لیے لڈو کھیلنا شروع کی تھی اس سے بڑے ڈپریشن کی وجہ سے اب زندگی کے دن پورے کر رہی ہوں۔‘
اقرا منشا نے ہی ہمارا رابطہ لاہور سے تعلق رکھنے والے عمیر رانا (فرضی نام) سے کروایا جن کی عمر محض 23 سال ہے اور وہ بھی لڈو گیم کے کلب مالکان کی ذاتی دشمنی کا شکار ہو کر ناصرف وہ بلکہ ان کی منگیتر بھی خودکشی کی کوشش کر چکی ہیں۔ 
عمیر رانا نے اردو نیوز کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کورونا لاک ڈاؤن کے وقت جب میری عمر محض 17,18 برس تھی اور میں فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا تو میں نے لڈو گیم کھیلنا شروع کی۔ کرنے کو اور کوئی کام تھا نہیں اس لیے جتنی دیر جاگتا گیم کھیلتا۔ لڈو کے علاوہ اگر میری زندگی میں کوئی اہمیت رکھتا تھا تو وہ صرف میری منگیتر تھی جسے میں لڈو سے بھی زیادہ چاہتا تھا۔ میں لڈو کھیلتا اور اس سے بات کرتا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ 'لڈو کھیلتے ہوئے میں اتنا آگے نکل گیا کہ میں نے خود کلب بنا کر لیگز کھیلنا شروع کر دیں۔ اس دوران کوائنز کی ضرورت پڑتی تو پیسے لگا کر کوائنز خریدنا شروع کر دیے۔ ہر ہفتے بارہ سے 15 ہزار روپے لگاتا اور کوائنز خریدتا۔‘

آن لائن گیمز کے شوقین کوائنز فروخت کرنے والے گروہوں کے ہاتھوں ذہنی اذیت سے گزر رہے ہیں (فائل فوٹو: فری پکس)

عمیر رانا نے کہا کہ ’کافی عرصہ گزر گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میں جن سے 12 ہزار کے کوائنز لیتا ہوں وہی کوائنز مجھے آٹھ ہزار روپے کے بھی مل سکتے ہیں۔ میں نے ایسا کیا مگر اس کی خبر دوسرے کوائنز بیچنے والے کو ہو گئی اور اس نے مجھے دھمکانا شروع کر دیا جسے میں معمول کا غصہ سمجھا۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’پھر ایک دن میری زندگی میں طوفان آیا۔ جب میں سو رہا تھا اور میری منگیتر کی سہیلی نے مجھے فون کیا اور فون اٹینڈ کرتے ساتھ ہی لعن طعن شروع کر دی۔ میرے پوچھنے پر صرف اتنا کہا کہ تم نے اس کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ تم نے اس کی زندگی برباد کر دی۔‘
عمیر رانا یہ بتاتے ہوئے رو رہے تھے، انہوں نے ہچکیوں کے دوران ہی بتایا کہ ’مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا تو میں نے اپنی منگیتر کو کال کی جس نے سسکیاں لیتے ہوئے شکوہ کیا کہ ہماری گفتگو، ویڈیو کالز اور تصاویر فیس بک پر کیوں موجود ہیں؟ جب میں نے اپنا فیس بک اکائونٹ کھولا تو یہ پوسٹ کہیں اور سے نہیں بلکہ میری ہی فیس بک آئی ڈی سے پوسٹ کی گئی تھیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب مزید دیکھا تو لڈو کے ایک گروپ میں بھی یہی پوسٹ موجود تھی۔ میں نے اس کے ایڈمن سے رابطہ کیا تو اس نے مجھے کہا کہ جس سے تم نے ابھی کوائنز لینا شروع کیے ہیں۔ اس نے کیا ہو گا۔ جب میں نے کہا کہ آپ اس گروپ کے ایڈمن ہو تو ڈیلیٹ کر دو اس نے میری کال ڈراپ کر کے مجھے بلاک کر دیا۔‘
’اس حادثے کے بعد میری منگیتر نے خودکشی کی کوشش کی اور میں اتنا بے بس ہو گیا تھا کہ اس کے پاس جا بھی نہیں سکتا تھا۔ اس کے خاندان کو بھی یہ بات معلوم ہو چکی تھی اس وجہ سے ہمارا رشتہ بھی ختم ہو گیا۔ میں شدید ڈپریشن کا شکار ہوگیا۔ بعد ازاں مجھے معلوم ہوا کہ اس کی جان بچ گئی ہے لیکن میں اس حالت کو پہنچ گیا تھا کہ گھر میں موجود تمام ادویات ایک ساتھ کھا کر اپنی جان لینے کی کوشش کی۔ میرے دادا ابو نے مجھے دیکھ لیا اور بروقت ہسپتال پہنچایا۔ میں کئی روز زیرِعلاج رہا۔‘
عمیر رانا نے کہا کہ ’لڈو کی دنیا اور کوائنز بیچنے والے کلب مالکان اس قدر سنگ دل ہیں کہ ان کے نزدیک کسی کی ماں بہن بیوی اور بیٹی کی عزت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ انہوں نے محض چند ہزار روپے کی خاطر مجھے اس حالت تک پہنچا دیا۔‘
اس سلسلے میں جب ایف ائی اے حکام سے رابطہ کیا گیا تو ان کا یہ کہنا تھا کہ ’لڈو یا کسی بھی آن لائن گیم میں جب پیسے کا لین دین ہوتا ہے تو وہ گیم غیرقانونی ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی آن لائن ایپ یا گیم کاروبار کر رہی ہے تو اس کا ایس ای سی پی اور پی ٹی اے سے رجسٹرڈ ہونا ضروری ہے۔‘ 
حکام نے بتایا کہ ’پاکستان میں لڈو گیم کھیلنے والوں کو کوائن بیچنے والے دو بڑے گروہ ہیں جن میں سے ایک کا نام شیڈو جب کہ دوسرے کا نام ڈسگائز ہے۔ ان دونوں بالخصوص شیڈو کے خلاف مختلف علاقوں میں کئی ایک شکایات درج ہیں جن پر کارروائیاں بھی کی گئی ہیں اور خاص طور پر کئی ایک مقامی لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے لیکن وہ خود ان کے متاثرین نکلے۔‘
حکام کے مطابق عمیر رانا کے کیس میں بھی چھاپے مارے گئے اور مزید تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ خود متاثرہ فریق ہیں اور ان کا فون ہیک کر کے نہ صرف انہیں بلکہ ان کی منگیتر کی عزت اور شہرت کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔

کئی خواتین نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں شکایت جمع کرانے کی کوشش بھی کی (فائل فوٹو: اے پی پی)

’ان دونوں گروہوں کے مالکان بیرونِ ملک مقیم ہیں جن کے بارے میں معلوم کیا جا رہا ہے کہ وہ کس ملک میں ہیں۔‘ 
حکام  کے مطابق ہمارے پاس یہ رپورٹ بھی موجود ہے کہ ان میں سے ایک گروہ نے دِیا نام کی ایک فیس بک آئی ڈی کے پیچھے موجود لڑکی اور اس کے دوست کے فون بھی ہیک کیے تھے اور انہیں بلیک میل کرنا شروع کیا تھا، جس کا اختتام یہ ہوا کہ اس لڑکی کو اس کے خاوند نے طلاق دے دی اور اب وہ گمنامی کی زندگی گزار رہی ہے جب کہ یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ 14 سال کی ایک بیٹی کی ماں تھی۔
ایف ائی اے حکام کا کہنا ہے کہ ’اس سے قبل گیم کے دوران کئی ایک خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں جہاں لڑکے چیٹ کے دوران لڑکیوں کے ساتھ نازیبا گفتگو کرتے ہیں اور ان لڑکیوں نے ایف ائی اے میں شکایات درج کروائی ہیں۔ ان شکایات پر جب کارروائی کی گئی تو بیش تر نوجوان بیرون ملک مقیم تھے۔‘ 

 

شیئر: