Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدر ٹرمپ غزہ پر اپنے ’سخت موقف‘ پر قائم، ’نہیں جانتا اسرائیل کیا کرے گا‘

صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ ہفتے کو 12 بجے کیا ہونے والا ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے بارے میں اپنا ’سخت موقف‘ برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ ’اگر مجھ پر منحصر ہوتا تو میں بہت سخت نقطۂ نظر اپناتا لیکن میں آپ کو نہیں بتا سکتا کہ اسرائیل کیا کرے گا۔‘
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ہفتے کہا تھا کہ ’حماس کو غزہ میں تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو سنیچر کی دوپہر تک رہا کر دینا چاہیے یا پھر غزہ کو جہنم بننے دو۔‘
انہوں نے جمعے کو صحافیوں کو بتایا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ کل (ہفتے) 12 بجے کیا ہونے والا ہے۔‘
20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدارت کی حیثیت سے حلف اُٹھانے سے قبل غزہ میں جنگ بندی کا آغاز ہوا۔ کچھ اسرائیلی یرغمالیوں کو حماس نے رہا کیا جس کے بعد اسرائیل نے فلسطینی قیدیوں کو چھوڑا۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے اسرائیلی یرغمالیوں اور رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں، دونوں کی تصاویر کو ’پریشان کُن‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ ان کی سنگین حالات کی عکاسی کرتی ہیں جن میں انہیں رکھا گیا۔‘
صدر ٹرمپ نے جمعے کو فلسطینیوں کی حالتِ زار پر تبصرہ کیے بغیر رہائی پانے والے اسرائیلی یرغمالیوں کی ظاہری حالت کے حوالے سے اپنے خدشات کو دہرایا۔
حماس نے کہا تھا کہ وہ طے شدہ منصوبہ کے مطابق اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی۔
جمعرات کو جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ سنیچر کو تین اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔

صدر ٹرمپ نے اسرائیلی یرغمالیوں کی ظاہری حالت کے حوالے سے اپنے خدشات کو دہرایا (فوٹو: روئٹرز)

حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں کی اگلی رہائی میں تاخیر کرنے کی دھمکی دی تھی، اور کہا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
اسرائیل نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت سے یہ دھمکی دی تھی کہ اگر یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ غزہ میں کارروائی دوبارہ شروع کر دے گا۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیل کے فوجی حملے میں 48 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی غزہ کو امریکی ’ملکیت‘ میں لینے اور فلسطینیوں کو مستقل طور پر بےگھر کرنے کی تجویز کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔

 

شیئر: