امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ پر کنٹرول اور فلسطینیوں کی منتقلی کے حوالے سے تجاویز پر عرب ممالک میں غصے کی لہر دوڑ گئی ہیں جن کا جنگ کے آغاز سے یہی مؤقف رہا ہے کہ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے نہ بے دخل کیا جائے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صدر ٹرمپ نے سب سے پہلے 25 جنوری کو یہ تجویز پیش کی کہ مصر اور اردن کو غزہ کے فلسطینیوں کو اپنے ملک میں رکھنا چاہیے، جس کی شدید الفاظ میں مخالفت کی گئی۔
اس کے بعد 4 فروری کو صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ واشنگٹن میں ملاقات کے بعد ایک اور حیران کن اعلان کیا۔
مزید پڑھیں
صدر ٹرمپ نے غزہ کی 22 لاکھ کی آبادی کو کسی اور مقام پر آباد کرنے، غزہ کی پٹی پر امریکی کنٹرول اور علاقے کو ’مشرق وسطیٰ کے رویرا‘ میں تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی۔
بعد ازاں 10 فروری کو امریکی صدر نے کہا کہ ان کے تجویز کردہ منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو غزہ واپسی کا حق حاصل نہیں ہو گا۔ جبکہ اس کے برعکس ان کی اپنی حکومت کے عہدیداروں مطابق فلسطینیوں کو عارضی طور پر غزہ سے منتقل کیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ کے تجویز کردہ منصوبے نے فلسطینیوں میں غزہ سے بے دخلی کے خدشات کو ایک مرتبہ پھر جنم دیا ہے، اور ان عرب ریاستوں میں بھی تشویش پیدا ہو گئی ہے جن کے خیال میں ایسے کسی بھی اخراج سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔
فلسطینیوں کو ہمیشہ سے یہ خوف رہا ہے کہ ایک مرتبہ پھر انہیں اپنی سرزمین سے زبردستی بےدخل کر دیا جائے گا جیسا کہ 1948 میں کیا گیا تھا جب 7 لاکھ فلسطینی بےگھر ہو گئے تھے اور اس دن کو نکبہ یعنی بڑی تباہی کا دن قرار دیا جاتا ہے۔
زبردستی اپنے گھروں سے نکالے گئے فلسطینیوں نے ہمسایہ عرب ممالک اردن، شام اور لبنان میں پناہ لی تھی۔
![](/sites/default/files/pictures/February/36486/2025/xtevcdkciziuzlf2ad5jclvrgy.jpg)
1948 میں ہجرت کرنے والے فلسطینی مہاجرین میں سے آج بھی 56 لاکھ اردن، لبنان، شام اور اسرائیلی زیر قبضہ مغربی کنارے اور غزہ میں رہائش پذیر ہیں۔
فلسطینی وزارت خارجہ کے مطابق رجسٹرڈ مہاجرین میں سے نصف ابھی تک مہاجر کیمپوں میں ہی رہ پناہ لیے ہوئے ہیں۔
ٹرمپ کی تقریباً 20 لاکھ غزہ کے فلسطینیوں کو آباد کرنے کی تجویز اردن کے لیے کسی خوفناک منصوبے سے کم نہیں ہے جو پہلے ہی فلسطینیوں کے غزہ اور مغربی کنارے سے انخلا پر خدشات کا اظہار کر چکا ہے۔
یہ خدشات اردن کے لیے ’سیاہ ستمبر‘ کی یاد کو بھی تازہ کرتے ہیں جب 1970 میں اردن کی فوج نے فلسطینی لبریشن آرگنائیزیشن کے زیرِ قبضہ علاقوں پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے آپریشن کا آغاز کیا تھا۔
سال 2023 میں شروع ہونے والی جنگ اور اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں کئی مرتبہ فلسطینی اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے جبکہ 48 ہزار غزہ میں مارے جا چکے ہیں۔
2023 میں آپریشن کے آغاز سے پہلے اسرائیل نے شمالی غزہ کے فلسطینیوں کو شہر کے قدرے محفوظ جنوبی حصے کی جانب نقل مکانی کرنے کو کہا تھا۔ لیکن جیسے جیسے آپریشن کا دائرہ کار وسیع ہوتا گیا تو فسطینیوں کو مصر کی سرحد کے ساتھ رفح کی طرف منتقل ہونے کو کہا گیا۔
اس کے بعد رفح میں بھی آپریشن شروع ہو گیا اور فلسطینیوں کو نئے نامزد کردہ انسانی ہمدری کے زون ’المواسی‘ منتقل ہونے کو کہا۔
![](/sites/default/files/pictures/February/36486/2025/yqpxst5fbfnxdhmcnrxzxkchnq.jpg)
اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں غزہ کی 85 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔
غزہ میں اکثریت کا کہنا ہے کہ موقع ملنے پر بھی وہ اپنا شہر اس خدشے کے پیش نظر نہیں چھوڑیں گے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ 1948 کی طرح وہ اپنی سرزمین پر دوبارہ کبھی واپس نہ آ سکیں۔
مصر کے حکام نے انسانی حقوق کی بنیاد پر فلسطینیوں کی نقل مکانی کی تجویز کو مکمل طور پر مسترد کیا ہے۔
اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے 16 فروری کو کہا تھا کہ غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور ایسا راستہ نکالیں گے کہ مصر کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے۔