فرینکلی سپیکنگ: سعودی عرب عالمی تنازعات میں ثالث کیسے بنا؟
فرینکلی سپیکنگ: سعودی عرب عالمی تنازعات میں ثالث کیسے بنا؟
پیر 24 فروری 2025 7:55
ڈاکٹر عبدالعزیز صقر کا کہنا تھا کہ غیرجانبدارانہ موقف نے سعودی عرب کو ایک مثالی رابطہ کار کے طور پر پیش کیا (فوٹو: عرب نیوز)
سعودی عرب ایک اہم سفارتی مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے، جس کی عکاسی حالیہ دنوں میں ریاض میں ہونے والے امریکہ اور روس کے درمیان اعلیٰ سطح کے مذاکرات سے ہوتی ہے۔ جس کا مقصد واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان تعلقات کی بحالی اور یوکرین جنگ خاتمہ ہے۔
سعودی عرب نے 18 فروری کو اس بات چیت میں ثالثی کا کردار ادا کیا، جو عالمی سطح پر اس کے ابھرتے ہوئے اثر و رسوخ کا مظہر ہے اور یہ موقع بطور ثالث ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مملکت کا کردار وسیع پیمانے پر فروغ پا رہا ہے اور اس کو مشرق اور مغرب کے درمیان اہم پل کی حیثیت دیتا ہے۔
امریکہ اور روس کے درمیان بات چیت کا اگلا دور 25 فروری کو متوقع ہے۔
گلف ریسرچ سینٹر کے بانی اور چیئرمین ڈاکٹر عبدالعزیز صقر نے عرب نیوز کے حالات حاضرہ کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں انٹرویو کے دوران ریاض میں روس اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی اہمیت کو اجاگر کیا اور کہا کہ ’سعودی عرب کے غیرجانبدارانہ موقف نے اس کو ایک مثالی رابطہ کار کے طور پر پیش کیا ہے۔
ان کے مطابق ’سعودی عرب نے ایک ایسی اہم پوزیشن اختیار کی جس کی بدولت یہ ملاقات ہوئی، اس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب نے کسی کی بھی سائیڈ نہیں لی، یعنی روسیوں کی نہ یوکرینیوں کی۔‘
عالمی میڈیا نے بھی سعودی عرب کے منفرد کردار کو اجاگر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس نے یوکرین جنگ کے حوالے سے روس اور مغربی دنیا کے ساتھ مثبت تعلق کو برقرار رکھا جو کہ 24 فروری 2022 کو شروع ہوئی تھی اور روس نے اس کو ’سپیشل ملٹری آپریشن‘ قرار دیا تھا۔
امریکی نیوز چینل سی این این کا کہنا ہے کہ امریکہ اور روس کے اعلیٰ حکام کی ملاقات کی میزبانی سے مملکت کی اس خواہش کی عکاسی بھی ہوتی ہے کہ وہ ایک ایسا عالمی کردار بنے جو بین الاقوامی تنازعات کی کامیابی کے ساتھ ثالثی کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سی این این نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ اب ’ایک ایسے ممکنہ مقصد‘ کی طرف بھی بڑھا جا سکتا ہے جس میں جنگ کے بعد ’غزہ کے مستقبل اور قسمت‘ کے حوالے سے بھی بات چیت میں بھی ریاض کا حصہ ہو۔
اسی طرح ریڈیو فری یورپ نے اس کو ایک ایسے موقع کے طور پر تجویز کیا ہے جس سے سعودی عرب اپنا اثر و رسوخ ایک ایسے وقت میں بڑھا سکتا ہے جب اس نے غزہ سے لوگوں کی منتقلی کے منصوبے کو رد کیا اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحال سے انکار کیا ہے۔
قاہرہ میں ہنگامی سربراہی اجلاس سے قبل جی سی سی ممالک، اردن اور مصر کے سربراہان نے ریاض میں ملاقات کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
عبدالعزیز صقر کا کہنا تھا کہ ’درحقیقت ریاض کی جانب سے کسی بھی طرف نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ روس کے رویے سے اغماض برتا گیا ہے اور نہ ہی حل کی طرف بڑھنے میں کوئی ناکامی ہوئی ہے۔
ان کے مطابق ’سعودی عرب نے اقوام متحدہ میں یوکرین پر روس کے حملے کے خلاف مسلسل ووٹ دیا اور قیدیوں کے تبادلے میں مدد کی۔
’درحقیقت اس نے جی سی سی ممالک کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ میں روسی حملے کے خلاف ووٹ دیا جنہوں نے اس معاملے پر واضح اور مضبوط موقف اپنایا ہے۔‘
ان کے مطابق ’انہوں نے یوکرین میں ایک انسانی ایشو کے حوالے سے اپنا حصہ ڈالا اور روس کی جانب سے یوکرینی قیدیوں کی رہائی میں بھی کردار ادا کیا۔
عبدالعزیز صقر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’جی سی سی نے یوکرین کے ایشو کے حل پر زور دیا اور سعودی وزیر خارجہ کے یوکرین کے دورے کے موقع پر بھی مملکت کے اس موقف کی مضبوطی سے تصدیق کی گئی جو یوکرین کے اتحاد سے متعلق ہے۔‘
ان کے بقول ’اس کے باوجود سعودی عرب نے کبھی یہ نہیں چاہا کہ وہ کسی ایک طرف ہو، جیسا کہ امریکہ اور یورپ نے کہا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ نہیں تو پھر ہمارے مخالف ہیں۔‘
’اس نے روس کے ساتھ بھی تعلقات بحال رکھے اور کبھی نہیں چاہا کہ روس کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑے جائیں کیونکہ روس اوپیک پلس میں مفید اور اہم شراکت دار رہا ہے۔‘
عبدالعزیز صقر نے کہا کہ ’متوازن سوچ کی بدولت مملکت کو یہ موقع ملا کہ وہ فریقین کے ساتھ رابطے رکھے اور بات چیت کے لیے سازگار ماحول بنائے۔‘
18 فروری کو ریاض میں ہونے والے مذاکرات میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، قومی سلامتی کونسل کے مشیر مائیک والٹز، مشرق وسطیٰ کے نمائندے وٹ کوف نے حصہ لیا اور روس کی جانب سے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف، پالسی ایڈوائز یوری اوشاکوف اور ماسکو انویسٹمنٹ فنڈ کے سربراہ کیریل دمتری شریک ہوئے۔
ڈاکٹر عبدالعزیز صقر نے ریاض میں روس اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی اہمیت کو اجاگر کیا (فوٹو: عرب نیوز)
انٹرویو کے دوران عبدالعزیز صقر کا کہنا تھا کہ ’یہ ریاض میں ہونے والی ایک اہم ملاقات تھی، اس میں امریکی اور روسی حکام ایک دوسرے کے قریب آئے جو کئی برس سے نہیں ملے تھے اور اس موقع پر حالات حاضرہ کے بارے میں مشاورت بھی ہوئی۔
ان کے مطابق ’اس کے نتیجے میں طے پایا کہ ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس پورے معاملے کا گہرائی سے جائزہ لے اور اس پر تفصیلی بات چیت ہو۔‘
انہوں نے کہا کہ اگرچہ یوکرین براہ راست ریاض میں ہونے والے مذاکرات کا حصہ نہیں تھا، تاہم اس کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اس سے آگاہ تھے۔ انہوں نے بعدازاں پیرس میں ہونے والی یورپین وزرائے خارجہ کی ملاقات میں اس پر بات بھی کی تھی اور ان کو ریاض میں ہونے والے مذاکرات کے نتائج کے حوالے سے بھی آگاہ کیا گیا تھا۔
تاہم ابتدائی بات چیت میں یوکرین کی عدم شمولیت سے ایسے سوالات اٹھے تھے کہ اگر امن معاہدہ طے پا گیا تو وہ کتنا پائیدار ہو سکتا ہے کیونکہ زیلنسکی کئی بار یوکرین کے بغیر طے پانے والے معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔
پچھلے پیر کو ریاض میں مذاکرات سے ایک روز قبل یورپی رہنماؤں نے عجلت میں پیرس میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد کیا تھا، جو ایسے خدشات کے دوران ہوا کہ اگر یورپ اور یوکرین کو مذاکرات سے باہر رکھا گیا تو اس کے براعظم کی سلامتی پر اثرات ہو سکتے ہیں۔
تاہم عبدالعزیز صقر نے واضح کیا کہ ریاض مذاکرات کا سلسلہ یوکرین کے ایشو سے بڑھ کر ہے اور اس میں امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات کے حوالے سے وسیع پیمانے کے معاملات شامل ہیں۔
اس میں روس پر پابندیوں اور منجمد اثاثوں سے متعلق معاملات بھی شامل ہیں۔
روس نے فروری 2022 میں پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
ایسی رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں جن میں کہا گیا کہ روسیوں کے لیے کریڈٹ کارڈز کے استعمال پر پابندی میں نرمی ہو سکتی ہے۔
ایسے اقدامات کو اعتماد سازی کے ماحول طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور ان کا مقصد تعمیری بات چیت کو آگے بڑھانا ہے۔
بات چیت کے نتیجے میں دراصل مملکت ایسے نکتے تک پہنچ سکتی ہے جس میں وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کی آمنے سامنے ملاقات کی میزبانی کر سکے۔
مذاکرات کے مستقبل کے حوالے سے عبدالعزیز صقر نے کہا کہ ’یوکرین یقینی طور پر ان میں شریک ہو گا اور میرے خیال میں امریکہ کی جانب سے یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یورپ اور یوکرین دونوں ہی شامل ہوں گے۔‘
غزہ ایشو کے حوالے سے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے سعودی عرب کے دو ریاستی حل کے غیرمتزلزل عزم کو ایک بار پھر دُہرایا۔
انہوں نے امریکہ کی اس تجویز کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جو غزہ کے لوگوں کی نقل مکانی اور فلسطینی سرزمین کو ریئل اسٹیٹ کے منصوبے میں تبدیل کرنے سے متعلق تھی۔
ان کے مطابق ’سعودی عرب کا موقف کبھی نہیں بدلے گا اور اب بھی دو ریاستی حل کے بارے میں ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی اور حل ہے تو ہمیں بتائیں۔‘