اقوام متحدہ میں فلسطین کے مستقل نمائندے ریاض منصور نے غزہ سے لوگوں کو نکال کر اردن اور مصر بھیجنے کی کسی بھی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے اس موقف کو دُہرایا ہے کہ ’یہ فلسطینیوں کا حق ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی بحالی نو کریں اور حکومت بنائیں۔‘
عرب نیوز کے کرنٹ افیئرز کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں انٹرویو کے دوران انہوں نے فلسطین کی خودمختاری کے لیے سعودی عرب کی حمایت کو بھی سراہا جبکہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر جنگی جرائم کا الزام لگایا اور غزہ کے مستقبل کے حوالے سے فلسطینی اتھارٹی کے کردار کا خاکہ بھی پیش کیا۔
مزید پڑھیں
-
امریکہ کے ’بھاری‘ بموں کی کھیپ اسرائیل پہنچ گئیNode ID: 885970
غزہ سے لوگوں کو نکال کر مصر اور اردن میں بھجوانے کی متنازع تجویز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیش کی تھی، جس کو خطے کے رہنماؤں نے مکمل طور پر مسترد کیا ہے۔
اردن کے شاہ عبداللہ دوئم عرب دنیا کے وہ پہلے رہنما ہیں جنہوں نے واشنگٹن میں دوسری ٹرم شروع کرنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات میں یہ واضح کیا کہ اردن زبردستی فلسطینیوں کو کہیں منتقل کرنے کی کوشش کو قبول نہیں کرے گا، تاہم انہوں نے 2000 انتہائی بیمار فلسطینیوں کو اپنے ہاں علاج کے لیے آنے کی اجازت دینے پر آمادگی ظاہر کی۔
ریاض منصور نے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کے خلاف متحدہ عرب کے موقف کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ’شاہ عبداللہ دوئم نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا کہ اردن کی مملکت فلسطینیوں کو غزہ سے باہر منتقل کرنے کے خلاف ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’جنگ بندی اور معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے ان کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو ریاستی حل کے علاوہ کوئی اور حل موجود نہیں ہے۔‘
رواں ماہ کے آغاز میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس تبصرے جس میں غزہ پر کنٹرول حاصل کرنے اور فلسطینی آبادی کو وہاں سے منتقل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا، اس پر سعودی عرب نے مضبوط بیان جاری کیا اور فلسطین کی خودمختاری کی توثیق پر زور دیا گیا تھا۔
سعودی عرب کی وزارت خارجہ کی جانب سے ایکس پر پوسٹ میں لکھا گیا کہ ’مملکت اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ فلسطینی عوام اپنی سرزمین پر حق رکھتے ہیں، وہ تارکین ہیں نہ کہیں اور سے آئے ہیں، جن کو اسرائیل کے ظالمانہ قبضے کے تحت جب چاہے نکالا جا سکے۔‘
اس کے بعد بھی مملکت کی جانب سے ایسے سخت بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔
ریاض منصور نے سعودی عرب کے مضبوط اور واضح موقف کی تعریف کی۔ ’مجھے حیرت نہیں ہوئی، ہم سعودی عرب میں اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، ہم ایک صفحے پر ہیں کہ فلسطینی عوام کے حقوق کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔’
انہوں نے عرب پیس انیشیٹیو پر بھی روشنی ڈالی، جو کہ فلسطین ریاست کے حوالے سے سب سے پہلے 2002 میں تجویز کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سعودی عرب کے اس اصولی اور انتہائی طاقتور موقف کو سراہتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’مجھے یقین ہے کہ عرب ممالک فلسطین کے حوالے سے سعودی عرب کے ساتھ ہیں، تاکہ ان قوتوں کو پیچھے ہٹایا جائے جو فلسطینیوں کی قومی امنگوں کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔‘
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو اس وقت بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں ان کو دس سال کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ غزہ کے معاملے کے حوالے سے بھی وہ مزید جانچ پڑتال کی زد میں آ گئے ہیں۔ بہت سے ناقدین کا خیال ہے کہ ان کی سیاسی بقا تنازع کو طول دینے میں ہے۔
ریاض منصور نے قانونی اور اخلاقی لحاظ سے نیتن یاہو کی جوابدہی کے حوالے سے کہا کہ ’وہ عالمی سطح پر بین الاقوامی عدالت انصاف کو مطلوب مجرم ہیں، جنگی جرائم پر ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری ہو چکا ہے اور انہیں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے کٹہرے میں جانا پڑے گا۔‘

بین الاقوامی فوجداری عدالت نے 24 نومبر کو نیتن یاہو کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے جس میں ان پر ’بھوک کو جنگی ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کرنے، جان بوجھ کر شہری آبادی کو نشانہ بنانے، قتل، ظلم و ستم اور دیگر غیرانسانی کارروائیوں کے الزامات لگائے تھے۔
اسرائیلی وزیراعظم نے ان الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔
اسی قسم کے وارنٹ اسرائیل کے سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ اور حماس کے سابق کمانڈر محمد ضیف کے بھی جاری ہوئے تھے جو مبینہ طور پر 13 جولائی 2024 کو اسرائیلی حملے میں مارے گئے تھے۔
ریاض منصور نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ اسے غزہ میں ڈھائے جانے والے مظالم کو انصاف کے کٹہرے تک لے کے جانا چاہیے۔