Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فرینکلی سپیکنگ: غزہ کے لیے عرب لیگ کے منصوبے کا جائزہ

عرب لیگ کا اجلاس چار مارچ کو قاہرہ میں منعقد ہوا تھا (فوٹو: عرب نیوز)
سعودی عرب کے معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار عبدالرحمان الراشد نے کہا ہے کہ اگرچہ غزہ کے لیے عرب لیگ کے منصوبے کو امریکہ اور اسرائیل نے مسترد کیا تاہم یہ مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھنے کے حوالے سے اب بھی بہت اہم ہے۔
عرب نیوز کے حالات حاضرہ کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں انٹرویو کے دوران عبدالرحمان الراشد نے غزہ میں جنگ کے بعد کی صورت حال کے حوالے سے عرب لیگ کے منصوبے کا واضح جائزہ پیش کیا اور لبنان، شام اور سعودی عرب کے سیاسی منظرنامے پر بھی بات کی۔
عرب لیگ کا غیرمعمولی اجلاس پچھلے ہفتے قاہرہ میں ہوا تھا جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس متنازع تجویز کے جواب میں منعقد کیا گیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ غزہ کا کنٹرول حاصل کر سکتا ہے اور وہاں کے لوگوں کو مصر اور اردن میں آباد کرنے کے بعد غزہ کو ایک سیاحتی مقام بنایا جا سکتا ہے۔
اس کے برعکس عرب لیگ کی طرف سے لائے گئے منصوبے کو یورپی یونین کے رہنماؤں کی حمایت بھی حاصل ہے۔
عبدالرحمان الراشد کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمارے سامنے غزہ سے متعلق تین منصوبے موجود ہیں۔
’پہلا عرب لیگ کا ہے جو کہتا ہے کہ لوگوں کی موجودگی میں پانچ سال کے دوران غزہ کی تعمیر نو کی جائے، جبکہ دوسرا اسرائیلی منصوبہ ہے جو بنیادی طور پر قبضے اور فوجی آپریشن کو جاری رکھنے سے متعلق ہے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق نکالے جانے والے 20 لاکھ فلسطینی گھر لوٹ سکیں گے یا نہیں مگر اس وقت تین پلانز ٹیبل پر موجود ہیں۔
ان کے بقول ’مجھے اس بات پر زیادہ یقین نہیں ہے کہ قاہرہ سربراہی اجلاس وائٹ ہاؤس کو قائل کرنے میں کامیاب ہوا ہے، مگر ہمارے پاس کم سے کم منصوبہ تو ہے اور اسی نکتے پر بات ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے اسرائیل اور ڈونلڈ ٹرمپ کی تجاویز کو نسلی تطہیر کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ سفارتی رابطوں کو جاری رکھنے کے لیے قاہرہ میں بننے والا پلان اہم فریم ورک فراہم کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بات چیت کرنے اور اس کو برقرار رکھنے کے لیے ایک راستہ ہے، کیونکہ صرف ٹرمپ 20 لاکھ لوگوں کو نکالنے کی بات نہیں کر رہے بلکہ مصر، اردن اور مشرق وسطیٰ میں بھی افراتفری کی صورت حال ہے۔‘

عبدالرحمان الراشد نے عرب لیگ کے پلان کے مختلف پہلوؤں پر بات کی (فوٹو: عرب نیوز)

عبدالرحمان الراشد نے اعتراف کیا کہ وہ منصوبے کے حوالے سے قدرے بدگمان تھے جس وقت انہوں نے ٹویٹ کیا تھا کہ عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابو الغیط کو خود وائٹ ہاؤس جا کر ٹرمپ کو تجاویز پیش کرنی چاہییں، چاہے اس کا انجام ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان ہونے والی جھڑپ جیسا ہی کیوں نہ ہو۔
عرب لیگ کے منصوبے پر ایک بنیادی اعتراض غزہ کی گورننس میں حماس کے کردار کے حوالے سے پیدا ہوتا ہے، کیونکہ اسرائیل، امریکہ اور کئی دیگر مغربی ممالک اس کو ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر دیکھتے ہیں، کم از کم اس حملے کے بعد جو سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر کیا گیا۔
جب عبدالرحمان الراشد سے پوچھا گیا کہ کیا حماس کی جانب سے توثیق کے بعد اسے تسلیم کیے جانے کی راہ میں رکاوٹیں آئیں گی؟ تو اس کے جواب مں انہوں نے کہا کہ حماس پہلے ہی اس معاملے سے باہر رہنے کے عزم کا اظہار کر چکا ہے۔
’دراصل حماس کا یہ بیان منصوبے کو ماننے کے قریب تر ہے، اس نے تقریباً یہ کہا ہے کہ غزہ کے نظام سے متعلق فلسطینی جماعتیں جو بھی فیصلہ کریں گی وہ اسے قبول ہو گا۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگرچہ حماس سیاسی کنٹرول چھوڑنے پر راضی ہو سکتی ہے تاہم اس کی جانب سے ابھی تک غیر مسلح ہونے کا عزم سامنے نہیں آیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ کے حوالے سے تجویز کے جواب میں عرب لیگ نے پلان پیش کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

حالیہ دنوں میں سامنے آںے والی ایسی رپورٹس پر مبصرین حیران ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ حماس کے ساتھ بات چیت میں براہ راست شامل ہے، جس میں امریکہ نے الٹی میٹم دیا اور مطالبہ کیا کہ باقی ماندہ یرغمالیوں کو رہا کیا جائے۔
عبدالرحمان الراشد صورت حال کو ایک مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھتے ہیں تاہم انہوں نے حماس کو تنقید کا نشانہ بنایا جو اہم معاہدے کے حوالے سے کھل کر اپنے جذبات کا مظاہرہ نہیں کر رہی، جس سے ظاہر ہے کہ وہ غزہ کے عوام کی فلاح سے زیادہ اپنے عوامی امیج کو ترجیح دیتی ہے۔
’میرے خیال میں اس وقت ہم تقریباً جنگ کے دوسرے مرحلے کے دہانے پر کھڑے ہیں، اس لیے ہمیں ممکنہ طور پر غزہ میں مزید اسرائیلی ٹینک نظر آ سکتے ہیں اور یہ انتباہ جادو کے طور پر کام کر سکتا ہے اور آنے والے دنوں میں زیادہ تر یرغمالیوں کو رہا کر دیں گے۔‘

شیئر: