Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور سے مبینہ طور پر کروڑوں روپے مالیت کا چلغوزہ کیسے غائب ہوا؟

تھانہ شادباغ میں بادشاہ خان کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
دنیا کے مہنگے ترین خشک میوہ جات میں سے ایک چلغوزہ اپنی لذت، افادیت اور منفرد ذائقے کی وجہ سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چلغوزے کی فی کلو قیمت اکثر دس ہزار روپے تک جا پہنچتی ہے۔
حال ہی میں ایک نیا معاملہ سامنے آیا ہے جس کے مطابق پنجاب کے مرکزی شہر لاہور کے علاقے شادباغ میں 92 ٹن چلغوزہ غائب ہوگیا ہے جس کی مالیت 92 کروڑ روپے بتائی جا رہی ہے۔
اس حوالے سے مدعیان نے لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس بھی کی اور آنے والے دنوں میں ریکوری نہ ہونے کی صورت میں ایوان وزیراعلیٰ کے سامنے دھرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ 
پاکستان میں چلغوزہ خاص طور پر ژوب، کوہستان، چترال، گلگت، شمالی اور جنوبی وزیرستان کے پہاڑی علاقوں میں پیدا ہوتا ہے۔
لاہور مختلف علاقوں سے لائے گئے چلغوزے کی تجارت کا مرکز ہے۔ لاہور میں ملک بھر کے مختلف علاقوں کے تاجر اس کاروبار سے منسلک ہیں جو نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرون ملک بھی چلغوزہ پہنچاتے ہیں۔ چلغوزے کی تجارت سے منسلک افراد کے مطابق ستمبر، اکتوبر اور دسمبر میں جنوبی وزیرستان اور دیگر علاقوں سے چلغوزہ مارکیٹ میں آنا شروع ہوتا ہے۔
لاہور کی چلغوزہ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری جاوید خان کے مطابق یہ کاروبار پچھلے 40 سالوں سے لاہور میں جاری ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے تاجر چلغوزے لا کر لاہور کے نجی کولڈ سٹورز میں ذخیرہ کرتے ہیں جہاں سے مناسب وقت اور ماحول کی سازگاری کے بعد انہیں فروخت یا برآمد کے لیے باہر لایا جاتا ہے۔
جاوید خان نے اردو نیوز کو بتایا 'مختلف علاقوں سے چلغوزہ آنے کے بعد فارسٹ ڈپارٹمنٹ کو فی کلو 25 روپے ٹیکس ادا کیا جاتا ہے جس کے بعد قانونی طور پر اس کی نقل و حمل کی جاتی ہے۔ لاہور پہنچ کر چلغوزوں کو پراسیس کیا جاتا ہے اور کچھ حصہ برآمد کر دیا جاتا ہے جبکہ باقی مقامی مارکیٹ میں فروخت ہوتا ہے۔'
ان کے مطابق چھلکے والا چلغوزہ اکثر چائنہ کو درآمد کیا جاتا ہے جبکہ چھلکے کے بغیر چلغوزہ مقامی مارکیٹ میں رہ جاتا ہے یا پھر یورپ اور خلیجی ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔ 
پاکستان کے مختلف علاقوں سے آنے والا چلغوزہ فوری طور پر فروخت نہیں ہوتا جس کے لیے لاہور میں کولڈ سٹورز بنائے گئے ہیں۔
اس حوالے سے جاوید خان بتاتے ہیں 'چلغوزے کو رکھنے کے لیے ایک مخصوص درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے، ہم یہ چلغوزہ لاہور کے نجی کولڈ سٹورز میں رکھتے ہیں جہاں ماہانہ 1000 روپے فی بوری کرایہ ادا کیا جاتا ہے۔ جب ماحول سازگار ہو تو یہ چلغوزہ کولڈ سٹورز سے باہر نکال لیا جاتا ہے۔'

ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری جاوید خان کے مطابق یہ کاروبار 40 سالوں سے لاہور میں جاری ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

تاجروں کے مطابق انہوں نے لاہور کے ایک کولڈ سٹور میں 1400 بوری چلغوزے ذخیرہ کیں جن کی مالیت 92 کروڑ روپے بتائی جا رہی ہے۔ چلغوزہ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری جاوید خان مزید بتاتے ہیں 'ہم نے ایک کولڈ سٹور میں چلغوزے کی 1400 بوریاں رکھیں جس پر لاکھوں کا ماہانہ کرایہ ادا کیا جاتا تھا۔
طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ہم جب بھی کسی کولڈ سٹور میں چلغوزہ رکھتے ہیں وہاں سے باقاعدہ رسیدیں لیتے ہیں اور رجسٹری دی جاتی ہے۔ اس بار چلغوزہ رکھنے کے بعد زیادہ تر ٹھیکہ دار اور تاجر گھروں کو چلے گئے۔ جب واپس آ کر سب اپنا مال دیکھنے گئے تو انہیں بتایا گیا کہ آپ کا چلغوزہ محفوظ ہے لیکن ہمیں معلوم ہوا کہ سٹور مالکان نے ہمارا چلغوزہ کہیں فروخت کر دیا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ سٹور مالکان نے اپنے ہی ایک منشی کو مدعی بنا کر تھانہ شادباغ میں اپنے ہی ایک ملازم کے خلاف چلغوزہ چوری کرنے کا مقدمہ درج کر رکھا ہے۔ اس سے پہلے سٹور میں آگ لگانے کا ڈرامہ رچایا گیا لیکن اس میں نقصان نہیں ہوا تو پھر مقدمہ سامنے آگیا۔'
ان کے مطابق سٹور مالکان مختلف حیلے بہانے بناتے رہے لیکن ان کو 1400 بوریوں پر مشتمل کروڑوں کی مالیت کا چلغوزہ واپس نہیں ملا اور اس دوران 6 ماہ گزر گئے۔
جاوید خان مزید بتاتے ہیں 'جس کولڈ سٹور میں ہم چلغوزہ رکھتے ہیں اس کا مالک اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کی رسید دی جاتی ہے۔ جس پر تاریخ اور تمام تفصیلات درج ہوتی ہیں۔ سٹور میں کیمرے لگے ہوتے ہیں۔ 20 سے 25 ملازم کام کرتے ہیں اور گارڈز سمیت پورا مانیٹرنگ کا نظام ہوتا ہے کیونکہ یہ سب سے ہائی ویلیو کاروبار ہے۔'
چلغوزہ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے دیگر ٹھیکیداروں کی جانب سے مختلف تھانوں میں مقدمات بھی درج کیے گئے اور اندراج مقدمہ کے لیے درخواست بھی دی گئی۔
اردو نیوز کے پاس دستیاب دستاویزات کے مطابق تھانہ شادباغ میں بادشاہ خان نامی ٹھیکیدار کی مدعیت میں 22 جولائی 2024 کو مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جس میں وقوعہ کی تاریخ 8 جولائی 2024 درج ہے۔ اس مقدمہ میں اسی سٹور کے مالکان اور منشی کو نامزد کیا گیا ہے۔
مقدمے کے متن کے مطابق ٹھیکے دار بادشاہ خان نے اپنے 5۔43 بوری چلغوزہ غائب ہونے کا الزام عائد کیا ہے جو 2 ہزار 945 کلو گرام تھا جس کی مالیت 2 کروڑ 50 لاکھ سے زائد بتائی گئی ہے۔
اسی ایف آئی آر کے ساتھ تمام رجسٹریز اور سٹور میں انٹری کی رسیدیں بھی لف ہیں۔ اسی طرح شمالی وزیرستان کے عبد اللہ نے بھی ڈی ایس پی سی آئی اے کو مقدمے کے اندراج کے لیے درخواست دی ہے جس میں اسی سٹور کے مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
اس درخواست میں بتایا گیا ہے کہ مدعی نے 53 بوری چلغوزہ جو کہ 3 ہزار 790 کلو گرام بنتا ہے اور جس کی مالیت 3 کروڑ 41 لاکھ سے زائد ہے، اسی سٹور میں رکھا۔

متاثرہ تاجروں نے لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران احتجاج کی دھمکی دی۔ فوٹو: اردو نیوز

درخواست کے متن کے مطابق ’8 جولائی کو جب وہ اور دیگر ساتھی رسیدیں لے کر گئے تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کا چلغوزہ غائب ہے‘ اسی درخواست میں مقدمہ میں نامزد سٹور مالکان کی جانب سے تھانہ شادباغ میں درج مقدمہ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس کے مطابق سٹور کے ملازم نے چلغوزہ غائب کیا ہے۔
اسی طرح کا ایک مقدمہ بنوں سے تعلق رکھنے والے ظفر خان نے 25 اکتوبر 2024 کو بنوں بھی درج کیا ہے جس کے بعد ایس پی انویسٹیگیشن بنوں نے اسی مقدمہ کا حوالہ دیتے ہوئے اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل آپریشنز خیبرپختونخوا کو خط لکھا جس میں لاہور کے ان ملزمان کی گرفتاری ڈالنے کے لیے متعلقہ حکام سے رابطہ کرنے کی درخواست کی گئی۔
آئی جی آفس نے خیبرپختونخوا کے ہوم اینڈ ٹرائبل آفئیرز ڈپارٹمنٹ کو خط لکھا جس میں متعلقہ حکام سے رابطہ کر کے ملزمان کو گرفتار کرنے کی درخواست کی گئی۔
خیبرپختونخوا ہوم ڈپارٹمنٹ نے پنجاب ہوم ڈپارٹمنٹ سے رابطہ کر کے متعلقہ ملزمان کو حوالے کرنے کی درخواست کی۔ ہوم ڈپارٹمنٹ نے سٹی پولیس اور پھر سٹی پولیس نے آئی جی پنجاب سے متعلقہ ملزمان کو گرفتار کر کے خیبرپختونخوا حکومت کے حوالہ کرنے کی درخواست کی تاہم اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔ 
جاوید خان بتاتے ہیں کہ اس دوران دونوں فریقین کے مابین ایک صلح نامہ بھی طے پایا جس پر تمام فریقین کے انگوٹھے بمع دستخط موجود ہیں۔
اردو نیوز کے پاس دستیاب صلح نامہ کی کاپی کے مطابق یہ معاہدہ یا صلح نامہ 22 اکتوبر کو طے ہوا تھا۔ اس صلح نامے میں 92 ٹن چلغوزے اور فی ٹن 80 لاکھ مالیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ صلح نامے میں غائب چلغوزے کی کل مالیت 73 کروڑ سے زائد بتائی گئی ہے۔ صلح نامے کے متن کے مطابق ’مدعیان ملزمان سے 40 کروڑ حاصل کر کے ایک مقدمہ میں 33 کروڑ سے زائد کی مالیت والے مدعی کو ریکوری دیں گے۔ اس طرح ترتیب وار یہ رقم ادا کی جائی گی۔‘
تاہم جاوید خان کے مطابق ملزمان اس صلح نامے سے بھی مکر گئے ہیں۔ جاوید خان نے مطالبہ کیا ہے۔ ’ہم آئی جی اور وزیراعلیٰ پنجاب سے درخواست کرتے ہیں کہ سٹور مالکان کو بٹھایا جائے کہ طے شدہ معاہدے کے مطابق اس پر عملدرآمد کروایا جائے اور ہمیں ریکوری دی جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہم ایوان وزیراعلیٰ کے سامنے دھرنا دیں گے۔ 

شیئر: