شاہ سلمان کی مداخلت سے مسجد اقصیٰ کا بحران حل ہوگیا
جدہ: باخبر ذرائع ابلاغ نے واضح کیا ہے کہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے امریکہ کے توسط سے مسجد اقصیٰ کا بحران حل کرا دیا۔ اسرائیل کئی دن سے مسجد اقصیٰ کے دروازے مسلمانوں کیلئے بند کئے ہوئے تھا ۔ عالمی دباؤ کو توڑنے کیلئے دو الیکٹرانک دروازے کھول دیئے گئے تھے تاہم بیت المقدس کے علماء اور مشائخ نیز عوام نے بائیکاٹ کررکھا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک مسجد اقصیٰ کے تمام دروازے معمول کے مطابق نہیں کھولے جائیں گے اورالیکٹرانک دروازے نہیں ہٹائے جائیں گے ،اس وقت تک کوئی بھی مسلمان مسجد اقصیٰ میں داخل نہیں ہوگا۔ ایلاف ویب سائٹ نے ایک اہم عہدیدار کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے امریکہ کے توسط سے نمازیوں اور سیاحوں کیلئے مسجد اقصیٰ کے دروازے کھلوائے۔ عہدیدار نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتنیاہو نے امریکہ کے توسط سے سعودی عرب سے عہد کیا کہ مسجد اقصیٰ کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اعلیٰ عہدیدار نے توجہ دلائی کہ جہاں تک دھات والی اشیاء دریافت کرنے والے آلات نصب کرنے کا معاملہ ہے تو یہ مقدس مقدمات کو دہشت گردوں کی ممکنہ سرگرمیوں سے بچانے کیلئے معمول بن چکا ہے۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر اس قسم کے آلات کا استعمال دہشت گردوں اور عام افراد دونوں کے حوالے سے ہر جگہ کیا جانے لگا ہے۔ ایلاف ویب سائٹ پر یہ بات بھی بتائی گئی کہ سعودی عرب نے فلسطینی عوام اور مسئلہ فلسطین کی خاطر پہلی مرتبہ مداخلت نہیں کی بلکہ وہ ماضی میں بھی اس قسم کے اقدامات کرتا رہا ہے۔ 1982 ء کے دوران شاہ فہد بن عبدالعزیز نے رونالڈ ریگن کے ذریعے لبنان میں فلسطینی مزاحمت کاروں کو پرامن اور باعزت طریقے سے نکلنے کا موقع فراہم کرنے کیلئے رابطہ کیا تھا۔ اسی سمجھوتے کے تحت فلسطینی رہنما یاسرعرفات بیروت سے تیونس منتقل ہوئے تھے۔