Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روئیداد خان، جو وزرائے اعظم کی رخصتی کے رازدان تھے

روئیداد خان کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو انہیں ملازمت سے برخاست کرنا چاہتے تھے، مگر پرانے تعلقات کی وجہ سے ایسا نہ کیا۔ (فوٹو: روئیداد خان ڈاٹ کوم)
معروف بیوروکریٹ اور بہت سارے متنازع فیصلوں کے عینی شاہد روئیداد خان کی زندگی کی اننگز 101 برس کے قریب پہنچ کر ختم ہو گئی ہے۔
گذشتہ برس ستمبر میں انہوں نے اپنی 100 ویں سالگرہ منائی تھی۔ انہیں پاکستان کے منتخب اور غیرمنتخب طاقتور حکمران طبقات سے قربت اور اہم تاریخی واقعات کے گواہ اور کردار کے طور پر یاد کیا جاتا تھا۔
روئیداد خان کے انتقال سے قیام پاکستان کے بعد اختیار اور اقتدار کے رموز سے آشنا بااثر اشرافیہ کا آخری نمائندہ بھی رخصت ہو گیا۔
ذہین اور زرخیز ذہن رکھنے والے زمانہ ساز روئیداد خان ستمبر 1923 کو مردان کے علاقے ہوتی میں پیدا ہوئے۔ خاندان کے بااثر ہونے کے باعث ان کے والد تحصیلدار کے عہدے پر فائز تھے۔ انہیں اپنے والد کے ہمراہ ملک کے مختلف حصوں میں رہنے اور تعلیم حاصل کرنے کا موقع میسر آیا۔
روئیداد خان کو اسلامیہ کالج پشاور کی طرف سے ایک بار لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ اس شہر کی شان و شوکت اور نفاست نے ان کا دل موہ لیا۔
تعلیم کے بقیہ مراحل لاہور کے ایف سی کالج میں طے کیے۔ معروف سفارت کار اور کرکٹ کے کمنٹیٹر جمشید مارکر یہاں ان کے کلاس فیلو تھے، جن کی وجہ سے وہ مغربی موسیقی سے آشنا ہوئے۔
ان کی پہلی ملازمت ایبٹ آباد میں کالج کے لیکچرر کے طور پر تھی۔ پاکستان بننے کے بعد سنہ 1949 میں لاہور سے ہی وہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے لیے منتخب ہوئے۔
روئیداد خان نے سنہ 1985 تک تقریباً 36 برس تک بیوروکریسی میں اسسٹنٹ کمشنر سے وفاقی وزیر داخلہ تک خدمات سرانجام دیں۔ مگر ان کی وجہ شہرت سنہ 1990 سے 1997 تک پاکستان کی ہنگامہ خیز اور کروٹ بدلتی سیاست کے پسِ پردہ فیصلوں، تنازعوں اور تبدیلیوں کا حصہ رہنے کی وجہ سے تھی۔
ان کا تعلق پاکستان میں طاقتور اشرافیہ کے اس قبیل سے تھا جنہوں نے یا تو خود حکمرانی کی یا حکمرانوں کی قربت کی وجہ سے ان کے بہت سارے فیصلوں کا حصہ رہے۔
پہلی قسم میں غلام محمد، اسکندر مرزا، چوہدری محمد علی اور غلام اسحاق خان شامل ہیں جنہوں نے مطلق اقتدار کا مزہ چکھا۔ جبکہ قدرت اللہ شہاب، الطاف گوہر، راؤ رشید اور روئیداد خان سرکاری مشینری کے وہ کل پرزے تھے جنہوں نے اپنے وقت کے حکمرانوں کے اقتدار کو مستحکم کیا۔

معروف سفارت کار جمشید مارکر ایف سی کالج میں روئیداد خان کے کلاس فیلو تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاریخی واقعات کے کردار اور گواہ

روئیداد خان کو جنرل ایوب سے لے کر ضیا الحق تک تمام حکمرانوں کی قربت میسر رہی۔ فوجی اور سول حکمرانوں کے دور میں وہ انگنت حادثات، واقعات اور فیصلوں کا کسی نہ کسی انداز میں حصہ رہے۔
ان واقعات اور فیصلوں نے آنے والے دور میں پاکستان کی قومی زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔
ایوب خان کے فاطمہ جناح کے بالمقابل صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد ان کے بیٹے گوہر ایوب نے کراچی میں فتح کا جلوس نکالا تھا، جس نے بعد میں تصادم کی شکل اختیار کر لی۔ اس خونی واقعے میں درجنوں بے گناہوں کی جان چلی گئی۔ روئیداد خان اس وقت کراچی کے کمشنر تھے۔
اپنی کتاب ’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘ میں انہوں نے اس دلخراش واقعہ کی وجہ جلوس کا مقررہ راستے سے ہٹنا اور مقامی انتظامیہ کی لاپرواہی کو قرار دیا ہے۔ اس حادثے کی انکوائری میں کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا تھا۔
مشرقی پاکستان میں بغاوت کے بعد 25 مارچ 1971 کو وہاں فوجی آپریشن شروع ہوا۔ اس وقت کے فوجی صدر یحیٰی خان اور ذوالفقار علی بھٹو اس سے قبل ڈھاکہ میں موجود تھے۔
روئیداد خان اس وقت وفاقی سیکریٹری اطلاعات تھے۔ ان کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کو ڈھاکہ بلوانے کے لیے انہوں نے فون پر رابطہ کیا تھا۔ آپریشن سے قبل یہ دونوں شخصیات مغربی پاکستان چلی گئیں، مگر وہ ایک ہفتے تک وہیں موجود رہے۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد 20 دسمبر کو ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سونپا گیا۔ ان کی پہلی نشری تقریر کے انتظامات بھی روئیداد خان نے ہی کیے۔ ان کے مطابق اس سے ایک دن قبل یحیٰی خان قوم سے خطاب میں اپنا بنایا ہوا آئین نافذ کرنے کا اعلان کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت کے سینیئر فوجی افسران کی مداخلت کی وجہ سے روئیداد خان کو صدر سے تقریر ملتوی کرنے کا کہنا پڑا۔

روئیداد خان کا غلام اسحاق خان سے تعلق قیام پاکستان سے قبل کا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بھٹو انہیں کس کا جاسوس سمجھتے تھے؟

ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی شناسائی 60 کی دہائی سے تھی، جب انہوں نے ایوب خان کی کابینہ سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ ان وقتوں میں روئیداد خان اکثر ان سے ملنے کراچی جایا کرتے تھے ۔ایک سرکاری ملازم کی معتوب شدہ شخص سے ملاقاتوں کی وجہ سے بھٹو انہیں ایوب خان کا جاسوس سمجھنے لگے۔
روئیداد خان لکھتے ہیں کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد بھٹو، الطاف گوہر کی طرح انہیں بھی ملازمت سے برخاست کرنا چاہتے تھے، مگر پرانے تعلقات کی وجہ سے ایسا نہ کیا۔
انہی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے مقدمے کے دوران ان کی جان بخشی کے لیے ضیا الحق کے نام دی گئی درخواست روئیداد خان ہی فوجی صدر کے پاس لے کر گئے تھے، جسے انہوں نے مسترد کر دیا تھا۔
ضیا الحق نے مارشل لا نافذ کرنے کے بعد غلام اسحاق خان کے کہنے پر انہیں وفاقی سیکریٹری داخلہ کا منصب سونپا۔ وہ اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی منصب پر کام کرتے رہے۔
روئیداد خان کا دعویٰ تھا کہ بھٹو دور میں کالعدم قرار دی جانے والی نیشنل عوامی پارٹی کے گرفتار رہنماؤں کی رہائی میں ان کا کردار بھی تھا۔
ان کے مطابق انہوں نے ہی ضیا الحق کو ولی خان، عطااللہ مینگل اور خیر بخش مری کو رہا کرنے کے لیے حیدرآباد ٹریبونل تحلیل کرنے پر آمادہ کیا تھا۔
پاکستان کے سابق آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کی اچانک وفات کے بعد نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا مرحلہ درپیش تھا۔ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان جنرل فرخ کو اس عہدے پر دیکھنا چاہتے تھے، جبکہ وزیراعظم نواز شریف اس تعیناتی کے خلاف تھے۔
دونوں کے درمیان کشمکش کے ماحول میں روئیداد خان نے بیچ کا راستہ نکالا۔ ان کے دعوے کے مطابق عبدالوحید کاکڑ کا نام بحیثیت آرمی چیف انہوں نے ہی پیش کیا تھا۔

روئیداد خان کے مطابق عبدالوحید کاکڑ (غلام اسحاق خان کے ساتھ بائیں جانب) کا نام بحیثیت آرمی چیف انہوں نے ہی پیش کیا تھا۔ (فوٹو: فلکر)

گانے بجانے کے محکمے کے سربراہ

یحیٰی خان نے جب اقتدار سنبھالا تو روئیداد خان کو پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کا مینجنگ ڈائریکٹر تعینات کیا گیا۔ اس وجہ سے اس دور کے فنون لطیفہ اور گلوکاری کے شعبے سے منسلک نامور شخصیات سے ان کی شناسائی ہوئی۔ ان کے بقول تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ اپنے عہدے سے بھرپور لطف اندوز ہو رہے تھے۔
مگر ان کی والدہ نے ان کے ایم ڈی بننے پر سخت برا منایا۔ جب وہ گھر گئے اور والدہ سے سامنا ہوا تو ان کا تبصرہ یہ تھا :
’کیا میرے بیٹے کے لیے گانے بجانے کا محکمہ ہی رہ گیا تھ ۔‘
روئیداد خان بہت زرخیز ذہن کے مالک تھے۔ انہوں نے ٹیلی ویژن پر بے شمار قابل دید پروگرام شروع کروائے۔
یہ مارشل لا کا دور تھا اور انہوں نے کسی طرح یحیٰی خان کو اس بات پر قائل کر لیا کہ سنہ 1970 کے الیکشن سے قبل تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ٹیلی ویژن پر خطاب کا موقع ملنا چاہیے۔
اسی وجہ سے ولی خان، شیخ مجیب اور ذوالفقار علی بھٹو نے پی ٹی وی پر اپنی اپنی جماعتوں کے منشور لوگوں کے سامنے پیش کیے۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر آغا ناصر، جو اس وقت الیکشن ویلج کے انچارج تھے، اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’جب انتخابات کے نتائج آئے تو اس وقت کے وزیر اطلاعات نوابزادہ شیر علی خان پٹودی نے ریڈیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اِنہیں ماننے سے انکار کر دیا تھا۔‘
وزیر اطلاعات نے پی ٹی وی کا دورہ کرنے کا پیغام بھجوایا۔ ساتھ ہی انہیں کہا گیا کہ وہ انٹرویو میں بھی الیکشن کے نتائج کے بارے میں اظہار خیال کریں گے۔
آغا ناصر نے صورتحال کی سنگینی کے باعث انہیں ٹالنا چاہا۔ ان کے بقول جب کراچی میں ان کا روئیداد خان سے رابطہ ہوا تو انہوں نے بھی آغا ناصر کے موقف کی تائید کی اور بڑی جرات اور حکمت سے شیر علی خان کا متنازع بیان ٹیلی ویژن پر نہیں چلنے دیا۔

روئیداد خان نے اپنی کتاب میں لکھا کہ نواز شریف کی جس تقریر میں اسٹیبلشمنٹ کو للکارا گیا تھا، وہ انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف کے ساتھ بیٹھ کر سنی تھی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

وزرائے اعظم کی رخصتی کے رازدان

ان کا سب سے قریبی تعلق سابق صدر غلام اسحاق خان سے تھا۔ دونوں کا تعارف اور تعلق قیام پاکستان سے قبل کا تھا۔ بھٹو اور ضیا الحق ادوار میں دونوں نے سیکریٹری کے طور پر اکٹھے کام کیا۔
جب غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو گھر بھیجا تو اس سے قبل روئیداد خان سے بھی مشورہ مانگا۔
ان کے بقول غلام اسحاق خان نے انہیں طلب کر کے اپنے ارادے سے آگاہ کیا جبکہ وہ ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ساتھ ہی انہیں نگراں حکومت میں احتساب کا وزیر بننے کا بھی حکم دیا۔
سنہ 1990 میں احتساب کے وزیر کے طور پر روئیداد خان نے بے نظیر بھٹو کے خلاف بدعنوانی کے الزامات میں تین ریفرنسز بنائے۔
اپنی کتاب میں وہ بے نظیر بھٹو کی عدالت کی طرف سے رہائی پر نالاں اور غصے میں دکھائی دیتے ہیں۔
بیوروکریسی سے تعلق کی وجہ سے سابق صدر فاروق لغاری بھی ان کے قریبی حلقہ احباب میں شامل تھے۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خاتمے سے قبل روئیداد خان کو اعتماد میں لیا۔ اپنی کتاب میں وہ اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ سنہ 1997 کے الیکشن سے قبل احتساب ہونا چاہیے تھا۔
نواز شریف اور غلام اسحاق خان کے درمیان سیاسی لڑائی میں روئیداد خان صدر کے قریبی مصائبین میں صف اول میں تھے۔ سنہ 1993 میں جب صدر نے اسمبلی تحلیل کرنا چاہی تو روئیداد خان حسب سابق ان کی مدد کرنے والوں میں شامل تھے۔
اپنی کتاب میں انہوں نے یہاں تک لکھا ہے کہ نواز شریف کی جس تقریر میں اسٹیبلشمنٹ کو للکارا گیا تھا، وہ انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف کے ساتھ بیٹھ کر سنی تھی۔

سنہ 1990 میں احتساب کے وزیر کے طور پر روئیداد خان نے بے نظیر بھٹو کے خلاف بدعنوانی کے الزامات میں تین ریفرنسز بنائے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بعد میں روئیداد خان نے ہی جنرل عبدالوحید کاکڑ کا پیغام غلام اسحاق خان تک پہنچایا تھا کہ وہ حکومت کی رخصتی کے کسی بھی آئینی اقدام کی صورت میں غلام اسحاق خان کا ساتھ دیں گے۔
یہ روئیداد خان ہی تھے جنہوں نے بے نظیر بھٹو کو نواز شریف کے ساتھ ساتھ غلام اسحاق خان کے استعفے کی خبر بھی ٹیلی فون پر دی تھی۔ ان کے بقول بے نظیر بھٹو کا جواب تھا کہ غلام اسحاق خان کی قربانی کی وجہ سے انہیں پیپلز پارٹی آئندہ الیکشن میں صدارتی امیدوار بنائے گی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ اور اقتدار کی راہداریوں میں ہونے والی سرگرمیوں کے کردار اور گواہ کے طور پر روئیداد خان کو ہماری تاریخ فراموش نہیں کر سکے گی۔
انہوں نے سنہ 1997 میں چھپنے والی اپنی کتاب میں بہت سارے چشم کشا واقعات سے پردہ اٹھایا تھا، مگر ان کے سینے میں دفن لاتعداد قومی راز ان کے ساتھ ہی قبر میں چلے گئے ہیں۔

شیئر: