Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قرآن مجید ، ہر د ور کا رہنما

ہماری وابستگی کن لوگوں کے ساتھ ہے، جو صلاحیتیں ہمیں دی گئی ہیں ان کو ہم کہاں اور کن مقاصد کیلئے استعمال کرر ہے ہیں؟
* * * * * *محمد آصف اقبال۔ نئی دہلی* * * * *
انسان کا یہ فطری رویہ ہے کہ جب وہ کسی پریشانی میںمبتلا ہوتا ہے تو مختلف قسم کی سعی و جہد میں ناکامی کے بعدتھک ہار کر اللہ تعالیٰ کے طرف پلٹتا ہے،اس سے مدد و نصرت کا خواہاں ہوتا ہے لیکن عموماً وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جبکہ پریشانی میں مبتلا انسان اللہ تعالیٰ کے جانب سے فراہم کردہ احکامات پر عمل درآمد کرے۔برخلاف اس کے یہ ممکن نہیں کہ وہ پریشانی سے نجات کے لئے اپنی پسند کے لحاظ سے طریقہ کار طے کرے ، اللہ تعالیٰ سے کھلے یا چھپے بغاوت کا رویہ اختیار کرے،اس کی ہدایات کو نظر انداز کرے اور وہ کامیاب ہو جائے۔
انسانی تاریخ میں ایسا نہ کسی دور میں ہوا ہے اور نہ آئند ہ ہوگا۔دوسری جانب اگر یہ معاملہ فرد واحد کی بجائے کسی قوم و ملت کا ہو تو پھر اس قوم و ملت کو بھی اجتماعی سطح پر وہی رویہ اختیار کرنا ہوگا جو کسی فرد واحد پر لازم آتا ہے لیکن دشواری اُس وقت ہوتی ہے جبکہ خدائی ہدایات کو بھی اپنی سمجھ،پسنداورترجیحات کے ساتھ توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے۔یہ مرحلہ بڑا دشوار گزار اور کنفیوژن سے بھرا ہوتا ہے اور عموماً اسی میں اچھے خاصے سوچنے سمجھنے والے دل و دماغ اور صلاحیتیں نامناسب طریقے اختیار کر بیٹھتے ہیں۔یہاں یہ کوشش کی گئی ہے کہ بدلتے حالات میں قرآن سے رہنمائی حاصل کی جائے؟اور ممکن ہو تو اُس کی روشنی میں اپنے شب و روز کی سرگرمیوں میں تبدیلی لائی جائے۔
اس موقع پر یہ وضاحت بھی کرتے چلیں کہ جو باتیں ہم نے اخذ کی ہیں ،وہ حتمی نہیں۔ آپ بھی غور و فکر اور اصلاح کا عمل جاری رکھیںاور ہماری بھی رہنمائی فرمائیں۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق اور اس کے مقاصد بیان کیے ہیں۔ساتھ ہی ابلیس اور آدم ؑکا قصہ بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔اللہ تعالیٰ اور ابلیس کے درمیان ہوئی گفتگو کا تذکرہ بھی موجود ہے ۔ فرشتوںکی جانب سے اس بات کا خدشہ کہ انسان اللہ کی نافرمانی کرے گا اور زمین میں فساد برپا کرے گا،یہ بات بھی خصوصیت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی جانب سے اطمینان کا اظہارموجود ہے اور ان لوگوں کو بشارت دی گئی ہے جو خدشات کو ضائع کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کے اطمینان پر پورے اترنے والے ہیں۔ان باتوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ سے لے کررسول اکرم تک ہدایات فراہم کرنے کے لئے جونبیوں کا سلسلہ جاری رکھا،اس کو بھی بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔نبیوں کی آمد اور مقاصدِ رسول ،ان کی ذمہ داریاں،ان کے ذریعہ انجام دیے جانے والے اہم ترین کام،یہ سب درج ہیں۔
آخر میں اطمینان دلایا گیا ہے کہ یہ قرآن اور اس کی ہدایات ،قیامت تک اپنی صحیح شکل میں موجود رہیںگی۔اس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ خود اپنے ذمہ لے رہا ہے لہذا انسانوں کو اس سلسلے میں کسی تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ۔ قیامت تک قرآن اپنی صحیح شکل میں موجود رہے گا۔ اس کے معنیٰ یہ بھی ہیں کہ ایک گروہ ہر زمانے میں ایسا ضرور موجود رہے گا جو قرآن پر عمل کرنے والا ہوگا اورلوگوں کے درمیان بشیر و نذیر کی ذمہ داری انجام دینے والا ہوگالہذا ہر مسلمان کے لئے زماں و مکاں کی قیود سے بالاتر لازم ہے کہ وہ اُس گروہ سے اپنے تعلق کو استوار رکھے،یعنی وہ اس گروہ میں شامل ہو جائے جو امربالمعروف و نہی عن المنکر کی ذمہ داری انجام دینے والا ہو۔سوال کرنے والا سوال کرسکتا ہے کہ اس گروہ کی پہچان کیا ہے؟اس کی پہچا ن بہت آسان ہے۔ یہ وہ گروہ ہے جس میں شورائیت قائم ہے اور جہاں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں شورائیت قائم نہیں ۔
وہ گروہ اِس زمرے میں نہیں آتایا جہاں جس درجہ میں شورائی نظام قائم ہے، اُسی درجہ میں اس کی حیثیت تسلیم کی جانی چاہیے اور کوشش کی جانی چاہیے کہ بالمقابل دیگر جہاں سب سے زیادہ شورائی نظام قائم ہواور اس پر عمل درآمد کیا جاتا ہو،اس سے منسلک ہوا جائے۔اب سوال یہ ہے کہ شورائیت کیا ہے؟تو جہاں اہل علم اور اہل تقویٰ سے ہر معاملہ میں مشورہ کیا جائے یہی شورائیت اور یہی شورائی نظام ہے۔برخلاف اسکے جمہوری نظام جہاں بظاہر انسانوں کی آراء کو شامل کیا جاتا ہے لیکن پس پردہ فاسد اور مفسد لوگ بڑے معاملات میں مشورے اور فیصلے کرتے ہیں،وہ نہ شورائیت ہے اور نہ ہی اسے شورائی نظام تسلیم کیا جا سکتا ہے۔موجود ہ حالات میں قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلمانوں کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اُس گروہ سے اپنا تعلق استوار کر یںجو امربالمعروف و نہی عن المنکرکا فریضہ انجام دینے والا ہے۔برخلاف اس کے مسائل کے حل میں وہ جو اقدام بھی کریں گے ،یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس میں حتمی کامیابی اُن کے حصہ میں کسی قیمت نہیں آئیگی۔مجھے اور آپ کو بھی اس نازک موقع پر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری وابستگی کن لوگوں کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو بے شمار صلاحیتیں ہمیں دی ہیں ان کو ہم کہاں ،کن لوگوں کے درمیان اور کن مقاصد کے حصول میں استعمال کرر ہے ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ ہماری وابستگی عموماً ان لوگوں کے ساتھ ہے جو فساد برپا کرنے والے ہیں اور ہماری صلاحیتیں بھی وہیں صرف ہورہی ہیںجبکہ وقت اور صلاحیتیں اللہ کی امانت ہے،اسے صحیح جگہ اور صحیح مقصد کے لئے استعمال ہونا چاہیے۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے اور ہم ان حالات میں کیوں مبتلا ہیں؟اس کا جواب بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم دیاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے، جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیںاور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہے، مگر حقیقت میں وہ بد ترین دشمن ِ حق ہوتا ہے،جب اسے اقتدار حاصل ہو جاتا ہے، تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لئے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل ِ انسانی کو تباہ کرے حالانکہ اللہ جسے وہ گواہ بنا رہاتھافساد کو ہر گز پسند نہیں کرتا اور جب اس سے کہا جا تا ہے کہ اللہ سے ڈر تو اپنے وقار کا خیال اس کو گناہ پر جما دیتا ہے، ایسے شخص کے لئے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے،دوسری طرف انسانوں ہی میں کوئی ایسا بھی ہے، جو رضا ئے الٰہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتا ہے او ر ایسے بندوں پر اللہ بہت مہر بان ہے، اے ایمان لانے والوں! تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤاور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، جو صاف صاف ہدایات تمہارے پاس آچکی ہیں، اگر ان کو پا لینے کے بعد پھر تم نے لغزش کھائی، تو خوب جان رکھو کہ اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے ۔‘‘(البقرہ204،209) واقعہ یہ ہے کہ آج اور ہر زمانے میں یہ بدترین دشمنِ حق مسلمانوں کے اندرون و بیرون خانہ دونوں جگہ موجود رہے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ خود شاہد ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اُنہیں کیسے پہچانا جائے؟اس کی سادہ سی پہچان یہ ہے کہ یہ جھوٹ،بے ایمانی اوربد عہدی پر کاربند ہوتے ہیں،اللہ تعالیٰ کی راہ میں سستی اور کاہلی کا اظہارکرتے ہیں اور صبرواستقامت اور نماز ان کی زندگیوں کے شب و روز کے اعمال کا حصہ نہیں ہوتے۔ دوسری جانب وہ لوگ جو اللہ سے ڈرنے والے اور اُسی کو ہر پریشانی میں پکارنے والے ہیں اُن سے کہا گیا ہے کہ کسی استثنا کے بغیر اپنی پوری زندگی کو اسلام کے تحت لے آ ؤ۔ تمہارے خیالات ، تمہارے نظریات ، تمہارے علوم، تمہارے طور طریقے ، تمہارے معاملات اور تمہاری سعی و عمل کے راستے سب کے سب بالکل تابعِ اسلام ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اپنی زندگی کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے بعض حصوں میں اِسلام کی پیروی کرو اور بعض حصوں کو اس کی پیروی سے مستثنیٰ کرلو۔آخر میں کہا گیاہے کہ جان رکھو اللہ زبردست طاقت رکھتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ اپنے مجرموں کو سزا کس طرح دے۔

شیئر: