ایران، سعودی سفارتخانے پر حملے کے حقائق کا پتہ لگانے میں تعاون کرے، تیونس
تیونس.... تیونس کے سیاستدانوں، صحافیوں اور اسکالرز نے مطالبہ کیا ہے کہ ایران ، تہران میں سعودی سفارتخانے اور مشہد میں سعودی قونصل خانے پر حملے کے حقائق کا پتہ لگانے میں تعاون کرے۔ ٹال مٹول، آنا کانی بند کرے۔ ڈیڑھ برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک سعودی قونصل اور سفارتخانے پر حملے کے حقائق منظر عام پر نہیں آئے ہیں۔ایران اس حوالے سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے۔ یہ عالمی روایات کے بھی سراسر مخالف ہے۔ ایران کا یہ بیان قابل مذمت ہے۔ عرب پارلیمنٹ میں قومی سلامتی اور خارجہ و سیاسی امور کے سربراہ احمد المشرقی نے سعودی سفارتخانے اور قونصل خانے پر حملے کو المناک اور بزدلانہ عمل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیڑھ برس پہلے پیش آنے والے واقعہ کی اب تک تحقیقات نہ کرنا اور اس سلسلے میں رکاوٹیں پیدا کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ایران کو اپنے لوگوں کی غلطی کا ادراک ہے۔عرب پارلیمنٹ کے ایک رکن نے توجہ دلائی کہ سعودی عرب نے ڈیڑھ برس سے زیادہ عرصے تک صبر کا مظاہرہ کیا اور اب جاکر اس نے اس بات پر احتجاج کیا ہے کہ ایرانی عہدیدار سفارتخانے اور قونصل خانے پر حملے کے حقائق منظرعام پر لانے سے گریز کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں سعودی عرب کو تحقیقاتی مشن بھیجنے، تحقیقات عمل میں شراکت اور سفارتخانے و قونصل خانے کے معائبنے سے روکا جارہا ہے۔ تیونسی اسکالر شاکر شرفی نے واضح کیا کہ صاف ظاہر ہے کہ ایرانی نظام حکومت اس گھناﺅنے جرم میں شریک ہے اس لئے حقائق کو چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔ تیونس کے صحافی حسن بن علی نے کہا کہ ٹال مٹول سے کام لینا ایران کی شناخت ہے۔ سعودی سفارتخانے پر حملہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ ایرانی 1987ءکے دوران بھی تہران میں سعودی سفارتخانے پر حملہ کرچکے ہیں۔ انہوں نے 2006ءمیں ایران میں فرانس کے سفا رتخانے کو جلانے کی کوشش کی تھی جبکہ 2009ءمیں مصری سفارتخانے پر حملے کیاتھا۔ 2011ءمیں برطانوی سفارتخانے میں توڑ پھوڑ مچائی تھی۔