Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمومی اور خصوصی توفی میں کیا فرق ہے؟

توفی لغت ،قرآن کریم اور سنت مطہرہ میں وارد ہے، توفی ذی روح اور  غیر ذی روح دونوں میں وارد ہے
* * * * ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ۔ مکہ مکرمہ* * *

    توفی عربی زبان کا کلمہ ہے جس کا مخصوص معنیٰ ہے ۔یہ اور اس کے دیگر مشتقات قرآن حکیم اور احادیث نبویہؐ  میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔ اس کلمہ کی اہمیت اور اس کے استعمال میں قادیانی دجل کی وجہ سے ہم یہاں اس کلمہ کی ہر پہلو سے مفصل شرح کریں گے اورسلف سے خلف تک اس کلمہ کی صحیح مفہوم کو بیان کریں گے ۔
    اس بحث سے متعلقہ درج ذیل آیات قرآنی وارد ہوئے ہیں:
    ٭إذ قال اللّٰہ یٰا عیسٰی إنّي متوفیک ۔۔۔الخ(آل عمران55)۔
    ٭اللہ یتوفی الأنفس حین موتہا ۔۔۔الخ(زمر42)۔
    پہلی آیت تو اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کے ذکر پر مشتمل ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ خاص ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
    اولا:     إنِّي متوفیک "میں تمہاری توفی کرنے والا ہوں" اور یوں پہلی نعمت خاصّہ ان کی توفی ہے ۔
    ثانیا:     رافعک إليّ  "میں تمہیں اپنی طرف اٹھانے والا ہوں" اور یوں دوسری نعمت خاصّہ ان کی اللہ تعالیٰ کی طرف رفع ہے۔
    ثالثا:     ومطہرک من الذین کفروا "میں تمہیں کافروں سے پاک کرنے والا ہوں" اور یوں تیسری نعمت خاصّہ ان کی اہل کفر سے تطہیر ہے۔
    رابعاً:     وجاعل الذین اتبعوک  فوق الذین کفروا  "اور تیرے اتباع کو تاقیامت تیرے منکر پر فوقیت دینے  والا ہوں"  اور یوں چوتھی نعمت خاصّہ ان کے منکرین پر فوقیت اتباع عیسیٰ ہے۔
     پہلی آیت میں باری تعالیٰ جل شانہ کے اس ارشاد گرامی  میں حضرت  عیسیٰ علیہ السلام کے  ساتھ خصوصی توفی، اس کے ساتھ ان کے رفع  اور ان کی تطہیر ۔یہ زمانہ ماضی کے اس حصہ میں جبکہ ان کے دشمن یہود نے ان کیلئے  مکر وتدبیر کی اور وہ یہ کہ انہیں قتل کردیں اور انہیں سولی دے دیں۔
    قرآن کریم میں اس ارشاد گرامی کا آغاز’’اذ‘‘ سے ہوا ہے ( اُس وقت کو یاد کرو ) پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت  عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جو جو کچھ کرنے والے تھے، اس کا ذکر ہوا۔
    «      ان کی توفی کا ذکر" متوفیک" سے فرمایا۔
    «  ان کی رفع کا ذکر" رافعک" سے فرمایا۔
    «  ان کی تطہیر کا ذکر "مطہرک "سے فرمایا۔
    «  ان کی اتباع کی فوقیت کا ذکر" وجاعلک" سے فرمایا۔
              ان تمام خصائص وانعامات ربانی کا حقدار اور صاحب توفی رب تعالیٰ کا مخاطب اس کا بندہ اور اس کا رسول  عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ہی ہے ان کے علاوہ دیگر کوئی انسان نہیں جو اس توفی اور دیگر امور میں ان کا شریک ہو(مذکورہ نقطہ کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلیں)۔
    اور دوسری آیت (اللہ یتوفی الأنفس حین موتہا۔۔الخ)
    اللہ تعالیٰ ان نفوس کی توفی فرماتے ہیں ان کی موت کے وقت ۔
    یہ عمومی بشر کی ان کی موت کے وقت توفی کے موضوع کو قرآن کریم میں مختلف مقامات پر بیان کرتی ہے۔اس آیت کی نص میں  موت کے وقت عام انسانی نفوس کو توفی یعنی قبضہ میں لینا ،پھر انہیں روک لینا ہے اور ایسے انسانی نفوس کی توفی قبضہ لینا پھر چھوڑ دینا ہے ۔اس توفی میں رفع تطہیر اور فوقیت کا ذکر نہیں ۔
    یہی عموم انسانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ضابطہ ہے کہ موت اور نوم میں ایسا ہی ہو اور اس میں تمام بنی نوع انسان شریک ہیں ، اس سے کسی کو استثناء نہیں بمع حضرت  عیسیٰ علیہ السلام کے  اور یہ عمل تواتر کے ساتھ رات دن ہورہاہے اور قرآن کریم میں باری تعالیٰ کے ارشاد گرامی میں لفظ (یتوفی) مضارع کے صیغے کے ساتھ اسی استمرار کو بیان کرتا ہے۔
    ہمارا موضوعِ سخن اس مقام پر انہی 2آیتوں میں مذکور توفی  عیسیٰ علیہ السلام اور توفی عموم بشر ہے۔
    موضو   ع کی تنقیح:
    کلمہ توفی لغت ،قرآن کریم اور سنت مطہرہ میں وارد ہے اور وہ توفی ذی روح اور توفی غیر ذی روح جہاں پر کہ حیات وموت یعنی زندگی اور مرنے کا تصور بھی نہیں پایا جاتا دونوں جگہ وارد ہے۔
    اب ہم اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں:
    «    توفی لغت عرب کا  ایک کلمہ ہے جس کا مخصوص مادہ اشتقاق ہے ،جس کا مخصوص وضعی یا لغوی معنیٰ ہے۔
    «  توفی ایسا کلمہ ہے جس کے مشتقات عربی لغت، قرآن کریم اور سنت نبویؐ میں موجود ہیں۔
    «  توفی یہ کلمہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات گرامی سے متعلق ہو تو مسلم امت کے عقیدہ کے اعتبار سے اس کا اپنا ایک مقام ہے ، اس کا مستقل قرآنی مدلول اور اسلامی مفہوم ہے۔
    «  توفی کی قادیانی ادب میں خصوصی اہمیت ہے اور اس کا خصوصی سبب ہے جسے ہم ان اہم امور کے ذکر کے بعد بیان کریں گے جن میں تأمل کرنا توفی کے مفہوم کے افصاح وتبیین کے لئے ضروی ہے۔
    «  توفی کے مفہوم کا افصاح بہت سے اہم امور میں تأمل کا تقاضا کرتاہے۔
    لغت میں توفی کے وضعی  ولغوی مفہوم کو جاننے کیلئے اور قرآن کریم میں اس کے ایک سے زائد مدلول پر دلالت، یہ ایسی حقیقت  ہے جس کا انکار ممکن نہیں ۔اس امر کی معرفت کیلئے مندرجِ ذیل امور میں تأمل کرنا ضروری ہے۔
    اولاً:     توفی کا مادہ اشتقاق۔ اس کا لغوی معنیٰ اور اس کا مقتضیٰ:    توفی کا مادہ اشتقاق (و ف ی) ہے ۔عربی زبان میں کہاجاتاہے : ’’وفیٰ، یفی، وفاء‘‘۔ ’’وفاء‘‘کا لغوی معنیٰ ہے اکمال اور اتمام۔
    توفی اس وفاء سے تفعل کے وزن پر مصدر ہے ۔کہاجاتاہے : توفي  یتوفي ۔توفیا۔اور توفي مصدر تفعل کا معنیٰ ہے (اخذ الشیء وافیا) کسی چیز کو بتمامہ لے لینا یا اس پر بتمامہ قبضہ کرلینا۔ استیفاء (پورے طورپر لے لینا ) یہ اس کا مُرادِف ہے۔
    مقتضائے لفظ : یہ لفظ وضع کے اعتبار سے اس امر کا  متقاضی ہے کہ جب بھی وفا یا توفی کے مشتقات آئیں تو اس جگہ اتمام واکمال اور استیفاء ہو ۔
    ثانیاً:     توفی کے فاعل اور مفعول میں  تأمل کرنا۔کبھی تو توفی کا فاعل اللہ تعالیٰ ہوں گے اور کبھی ان کے علاوہ بھی ، اسی طرح توفی کا مفعول کبھی ذی روح ہوگا اور کبھی غیر ذی روح۔
    ثالثاً:     وفا اور توفی کے ان مشتقات میں تامل جو قرآن کریم میں وارد ہیں :
    صیغہ ماضی میں، جیسے ’’أوفٰی‘‘، ’’وفّي‘‘، ’’      وُفّیت‘‘، ’’  توفّت‘‘۔
    صیغہ مضارع میں، جیسے  ’’یتوفّٰی‘‘، ’’یتوفّون‘‘، ’’  توفّون‘‘، ’’یوفّون‘‘۔
    صیغہ امر میں، جیسے’’أوفوا‘‘۔
    صیغہ اسم فاعل میں ،جیسے ’’متوفِّي‘‘۔
    رابعاً:     قرآن کریم میں غیر ذی روح کی توفی اور لغت  میں بھی۔
    قرآن کریم میں ہے :وإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔
    ’’تم اپنے اُجور روز قیامت پورے طورپر دیئے جاؤگے ۔‘‘(آل عمران185)۔
    اس آیت میں متوفی پورے طورپر دیئے جانے والے تو اُجور ہیں جن میں حیات وممات یا روح کا تصور  سرے سے ہی نہیں ۔لغت میں جیسے کہاجاتاہے :  توفّیتُ الثَمنَ۔’’میں نے قیمت پوری وصول کرلی‘‘۔
    یہاں متوفی پورے طورپر وصول کی جانے والی چیز قیمت ہے جس میں موت وحیات یا ر وح کا ہرگز تصور نہیں ۔
    خامساً:     ذی روح کی توفی اور متوفی اللہ تعالیٰ، جیسے: اللہ  یتوفی الأنفس…یا ذی روح کی توفی اور متوفی اللہ کے فرستادے اور اللہ کے حکم سے اس کے فرشتے ،جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے :توفتہ رسلنا ۔انہیں پورے طورپر ہمارے فرشتے لے لیتے ہیں۔
    ہم ان تمام امور کو آگے چل کر چارٹ کی صورت میں پیش کریں گے ۔    سادساً:     اس میں تأمل کہ ہر مذکورہ صورتحال میں توفی پورے طورپر قبضہ میں لے لیناہے ۔
    کلمہ توفی موت دینے (اماتہ) یا نیند دینے (انامۃ)  یا اٹھالینے (رفع) کا ہرگز مُرادِف نہیں مگر ان تمام پر توفی کا مفہوم حسب قرینہ صادق آئے گا۔ نہ ہی لفظ توفی ان تمام کو شامل ہوتاہے ۔ ہاں اس کی مراد کیاہے؟ اس کا تعین قرینہ سے ہوگا۔موقع اور محل سے ہوگا۔
    قرآن کریم  میں توفی کا مصداق:
    لفظ توفی قرآن کریم میں مختلف معانی پر صادق آتاہے ۔اس اعتبار سے اہل علم کی زبان میں وہ جنس ہے ۔ہر وہ مفہوم جو مختلف حقائق پر صادق آئے اسے جنس کہاجاتاہے۔
    کونسا مصداق(فرد) متعین ہوگا اور وہ کیسے؟:
    توفی کے مختلف افراد ،انواع اور اقسا م یا اس کے مختلف مأصدق میں سے کونسا مراد ہے؟تو اس کا فیصلہ کلام کے سیاق وسباق میں موجود قرائن وشواہد ہی کریں گے ۔کلام کا مورد ومحل ہی کرے گا۔    قرآن کریم کے مہبط وحی نبی خاتم اس کا افصاح اپنے بیان سے فرمائیں گے جنہیں قرآن کریم کے ساتھ ساتھ اس کا بیان بھی عطا ہوا ۔ان سے ان کے صحابہ نے یاد کیا، اس کے بعد اہل تفسیر سے اس کی تثبیت فرمادی اور وہ امت میں تواتر سے نقل ہوتارہا  حتیٰ کہ امت مسلمہ کا توفی کے مدلول پر اجماع ہوگیا۔
    لہذا اس باب میں لغت اور شارع کے بیان کی پاسداری ضروری ہے ۔جس نے  قرآنی توفی کو اپنی طرف سے بیان کیا ، لغت کی مخالفت کی ، نقل کی پاسداری نہ کی ، اس نے اللہ تعالیٰ کی آیات میں الحاد کا ارتکاب کیا ۔ وہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول   اور امت مسلمہ کے خواص وعوام کا خیر خواہ نہیں  حالانکہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا : دین تو خیر خواہی  سے عبارت ہے ۔کہاگیا : کس کی؟ تو آپ نے فرمایا: اللہ کی ،اللہ کے رسول() کی اور امت مسلمہ کے ائمہ اور عوام کی۔
    سابعاً:    عمومی انسانی توفی کا اس کے عمومی صیغہ کی رُو سے مطالعہ کیا جائے اور توفی  عیسیٰ علیہ السلام کا اس کے مخصوص خطاب کی رُو سے مطالعہ کیاجائے تاکہ مطالعہ کرنے والا توفی کے 3 مندرجہ ذیل مأصدق یا  3 انواع واضح ہوجائیں :
    1۔توفی اماتہ یا توفی موت۔2۔توفی انامہ یا سلانا۔3۔توفی رفع۔
    «   توفی اماتہ یا توفی موت:یہ صرف انسان کی اجل کے وقت آتی ہے۔اجل سے قبل نہیں، چاہے عام بشر ہوں یا خاص حضرت  عیسیٰ علیہ السلام ہوں۔
    « توفی انامہ یا توفی نوم:یہ بحالت نوم آتی ہے۔ چاہے عام بشر ہوں یا خاص حضرت  عیسیٰ علیہ السلام ۔ان دونوں کو قرآن کریم نے عمومی خطاب سے ذکر فرمایا ہے۔
     « توفی رفع: بتمام روح وجسد سمیت  مقبوض ومتوفی کو آسمان کی طرف لے جاناہے۔ یہ توفی مخصوص شخص کی ہے ۔خاص صیغہ سے مخصوص مخاطب کیلئے اور حسب بیان قرآن ۔یہی توفی  عیسیٰ علیہ السلام ہے۔
    یاد رہے کہ قرآن کریم نے یہ توفی معین شخص کیلئے مخصوص خطاب سے ذکر کی ہے۔
    قرآنی توفی میں اس کی نوع کا تعین کیسے ہوگا؟
    جب ہم توفی کا قران کریم کی مختلف آیات سے مطالعہ کرتے ہیں تو اس میںاس امر کو روز روشن کی طرح واضح دیکھتے ہیں کہ توفی کی ہر نوع اس کے قرینہ سے متعین ہوجائے گی اور لفظ توفی اپنے معنیٰ مراد پر (علی وجہ الکنایۃ )کنائی طورپر دلالت کرے گا۔
    پھر جب توفی کا مدلول متعین ہوجائے گا تو متوفی (اسم فاعل) کا معنیٰ بھی اسی کی رُو سے متعین ہوجائے گااور متوفی اسم مفعول کا بھی۔تمام احوال میں توفی پورے طورپر قبضہ میں لینا اور متوفی پورے طورپر مقبوض ہی ہوگا۔
    ثامناً:     توفی ذی روح کی ہو یا غیر ذی روح کی ،ان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی کی گئی ہے اور ملائکہ کی طرف بھی جبکہ توفی اماتہ(یعنی موت دینا) اس کی نسبت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اور اسی طرح  توفی انامہ(یعنی سلادینا) اس کی نسبت بھی صرف اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔
    جن 8 امور کا ہم نے ذکر کیا ہے، ان کو مدّ نظر رکھنے سے بآسانی توفی کے مدلول وماصدق پر بصیرت حاصل ہوگی اور قرآن کریم ،سنت شریفہ اور لغت میں جہاںپر لفظ توفی آئے گا اس میں خلط نہ ہوگااور اگر ان امور کی رعایت نہیں کی جائے گی تو توفی کے مدلول میں التباس کا اندیشہ ہوگا خصوصاً حضرت  عیسیٰ علیہ السلام کی توفی کے باب میں ،اسی لئے تو اہل علم نے قرآن فہمی کیلئے ضوابط مقرر فرمائے ہیں۔
    اب ہم اس امر کو بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے توفی میں قادیانیت نے کیا  خلط کیا ہے؟
    توفی اور اس میں قادیانیت کا لبس وخلط:
    قادیانیت نے حضرت  عیسیٰ علیہ السلام کی توفی میں خلط کیا ہے اور ان کی توفی کے مفہوم میں دجل وتلبیس سے کام لیا ہے۔اس کے اسباب پر ذرا غور کریں:
    قادیانیت نے ایسا کیوں کیا؟
    قادیانیت کا بانی مرزا غلام احمد قادیانی52سال کی عمر تک حضرت  عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا قائل تھا کہ وہ ان کے رفع سماوی کو بھی مانتاتھا اور پھر آسمان سے ان کے نزول کا بھی اعتراف کرتا تھا ،یعنی وہ ا ن کی توفی کی وہی تفسیر کرتاتھا جو امت مسلمہ کے ہاں معروف ہے ۔اس عقیدے کو اس نے براہین احمدیہ میں ثبت بھی کیا ہے ،لیکن جب اس نے اپنے لئے مسیحیت کا دعویٰ کیا تو عیسیٰ علیہ السلام کی توفی کو ان کی اماتہ یعنی ان کے مارنے پر حمل کردیا اور وہ ان کی حیات کا منکر ہوگیا ۔ان کے رفع سماوی اور وہاں سے ان کے نزول کا بھی اس نے انکار کردیا ۔اس کا یہ زعم باطل تھا کہ اگر وہ اس تلبیس اور دجل میں کامیاب ہوگیا تو شاید یوں اپنے اہداف کی تکمیل  سے راستہ مل جائے گا ، جنہوں نے اسے دعوئ مسیحیت پر اپنے لئے کھڑا کیا تھا، ان کا مقصد پورے ہوسکے (اور وہ نسخ جہاد تھا)۔

(جاری ہے)

شیئر: