Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فری ہینڈ


محمد مبشر انوار
    کوئی بھی نظام اپنے طے شدہ مروجہ اصولوں کے تحت بروئے کار آئے تو اچھے نتائج دیتا ہے اور اگر مروجہ اصولوں سے ہٹ جائے تو چوں چوں کا مربہ  بن جاتا ہے،اس کے تحت حاصل ہونے والے نتائج کسی بھی صورت وہ نہیں رہتے جن کی امید اس نظام سے  وابستہ افراد کر سکتے ہیں،زندگی کا تارو پود بکھر کر رہ جاتا ہے ،آسان راستے مشکل اور  سامنے نظر آتی منزلیں دور ہو جاتی ہیں۔ رہبر کا وژن واضح ہو تو انگریز و ہندو جیسی مکار و عیار اقوام سے چو مکھی لڑ کر بھی اپنی قوم کو آزادی  دلوائی جا سکتی ہے لیکن اگر رہبر کا  مقصد  فقط ذاتی تجوریوں کو  بھرنا ہو تو نہ صرف قومی غیرت  و حمیت داؤ پر لگتی ہے  بلکہ آزادی جیسی نعمت بھی ہاتھوں سے پھسلتی محسوس ہوتی ہے۔   اقوام عالم میں ایسی اقوام کی نہ  تو کوئی شنوائی ہوتی ہے  اور  نہ ہی  عزت کہ قوم کے  رہبر اپنے ذاتی مفادات کی  خاطر ملک  و  قوم کو  گروی رکھنے سے گریز نہیں کرتے ۔ بے شک بدترین جمہوریت ، بہترین آمریت سے  بہتر ہوتی ہے  لیکن اگر حقیقی معنوں میں جمہوریت ہو ۔پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ’’بس کریں  اور جمہوریت کو چلنے دیں‘‘اس کا مطلب کیا ہے؟ ہمارے سیاستدانوں کو  نہ جانے کیوں سمجھ نہیں آتی کہ اس ملک کی بقا ء  و  ترقی حقیقی جمہوریت  میں ہی ممکن ہے ،مارشل لا اس ملک  تو کیا کسی بھی ملک میں  مسائل کا حل نہیں ،دکھ مگر اس بات کا ہے کہ ہمارے سیاستدان کھوکھلے  نعرے تو بہت لگاتے ہیں مگر عملاً ان کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ ایک طرف وہ پارلیمنٹ کی بالا دستی کی دہائیاں دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ ملک کا سپریم ادارہ ہواور  بعینہ ویسے  ہی قوانین پاس کرے جیسا کسی بھی  دوسرے مہذب ملک کی پارلیمنٹ کرتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی  یہ بھول جاتے ہیں کہ  مہذب  اور ترقی یافتہ اقوام کی پارلیمنٹ قوانین  بناتے وقت کسی ایک ’’شخص ‘‘کو  مد نظر رکھ کر قوانین نہیں  بناتی بلکہ ان کے نزدیک سارے شہریوں کے حقوق یکساں ہوتے ہیں۔ ان اداروں میں بنائے جانے والے قوانین کا مقصد عوام کی زیادہ سے زیادہ  فلاح و بہبود اور بااختیاروں پر زیادہ سے  زیادہ قدغنوںکے ساتھ ساتھ جواب دہ بنانا ہے نہ کہ با اختیاروں کو کھلی چھٹی جبکہ عوام کو ان کے ’’غلام‘‘ بنانے کے قوانین تیار کئے جائیں۔ مہذب  دنیا میں ریاستی ستونوں کو  نہ صرف با اختیار بنایا جاتا ہے اور  میرٹ پر تقرریوں کو  فروغ دیا جاتا ہے،اہل  ترین افراد کو ان اداروں کی زینت بنایا جاتا ہے (جس سے اداروں کا وقار مزید بڑھتا ہے)تا کہ عوام کا اعتبار ان اداروں پر قائم رہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق کا تحفظ بغیر کسی دخل اندازی یا رکاوٹ کے جاری رہے ۔
    بد قسمتی سے پاکستان میں جمہوریت ابھی تک اپنے قدم جمانے میں ناکام ہے،موجودہ سیاستدانوں کی اکثریت جمہوری روایات سے نا بلد مگر ذاتی مفادات کے تحفظ میں طاق ہے۔ رواداری،وضع داری،تحمل،برداشت  اور اصولوں کی  سیاست عرصہ ہوا کہیں دفن ہو گئی،بڑے بڑے قد آور موقع پرست اس  وقت افق سیاست کے  بزرجمہر بنے بیٹھے ہیں اور عوام کی ہڈیوں سے گودا تک  نکالنے میں متحد نظر آتے ہیں۔ رہی سہی کسر مذہبی رہنماؤں کے سیاست میں کودنے سے پر ہو چکی ہے،جو  سیاست دانوں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اگر وہ ذاتی مفادت سے اوپر اٹھ کر عوام کے لئے سوچنے کی اہلیت رکھتے تو یہ نوبت قطعاً  پیدا نہ ہوتی۔ ماضی کے تجربات سے ہم نے  من حیث القوم کچھ بھی نہیں سیکھا،  جنرل   ضیاء   دورمیں  فاشزم کو ملنے   والے فروغ کا  جادو آج  سر چڑھ کر بول رہا ہے، اسلامی جمعیت  طلبہ کے  مد مقابل ایک اور  فاشسٹ جماعت (ایم کیو ایم)کا قیام اور  آج تحریک لبیک یارسول اللہ کا  افق سیاست پر نمودار  ہونا ،اس جماعت کو  اس قدر  ترویج ملناسیاست دانوں کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے؟اس کا   ذمہ دار سیاستدانوں کے علاوہ اور کون ہے؟سیاستدانوں کی نا عاقبت  اندیشیوں نے ملک کو  انتہائی مخدوش حالات سے دو چار کر دیا ہے ،ہزار بار تسلیم کہ  بنیاد پرستی کی اس کونپل کو  سینچنے ،نکھارنے اور  پروان چڑھانے میں  سراسر ضیاء کا قصور ہے  مگر سیاستدانوں نے بھی اس کو قابو کرنے میں اپنے کردار سے  مجرمانہ غفلت برتی ہے  وگرنہ یہ ممکن نہ تھا کہ جمہوری  دور میں بھی یہ قوتیں اس  قدر طاقتور رہتی۔  درحقیقت  سیاستدان اس طبقے کا احساس محرومی دور کرنے میں  بری طرح ناکام ہوئے بلکہ اپنے ڈنگ ٹپاؤ مفادات کی خاطر ان  عناصر کو استعمال بھی کرتے رہے،جس کے نتیجے میں آج  وہ اس قدر طاقتور ہو چکے ہیں کہ  بزور حکومتی  معاملات میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
    لاکھ کہیں کہ ہم جمہوری دور میں جی رہے ہیں مگر نہ  جمہوریت کہیں نظر آتی ہے  اور نہ اس جمہوریت کے اثرات کسی بھی سطح پر نظر آتے ہیں۔ پارلیمنٹ اور منتخب نمائندوں کی بالا دستی کا جو   رونا ،رویا جاتا ہے  در حقیقت اپنی کرپشن کو چھپانے کے حیلے بہانے ہیں،مقننہ کے رکن ہوتے ہوئے ایسے  قوانین بنانے کا  عندیہ دیا جا رہا ہے کہ کوئی بھی  ادارہ حکمرانوں کے سامنے  دم نہ مار سکے۔  یہ الگ بات ہے کہ عدلیہ کو حاصل ہونے والی آزادی اتنی آسانی سے سلب نہیں کی جا سکتی کہ آئینی ترمیم ہونے کے با وجود  ساری  دنیا میں یہ طے شدہ اصول ہے کہ عدالت عظمیٰ نظر ثانی کا حق رکھتی ہے  اور یہ ممکن نہیں کہ ایسی کوئی بھی  ترمیم جو آئین کے  بنیادی ڈھانچے سے  مطابقت نہ رکھتی ہو،اسے تسلیم کر لیا جائے۔ ایسی کوئی بھی  ترمیم جو عوامی مفاد کی  بجائے شخصی مفاد کی  نگہبانی کرے اسے کسی بھی صورت  مقننہ کا حق فائق تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور  نہ  ہی اس وقت پاکستانی مقننہ اس قابل ہے کہ اس کا موازنہ  مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کی مقننہ سے کیا جا سکے۔ مہذب  اور ترقی یافتہ ممالک میںجہاں مقننہ کی حیثیت سب سے بالا ہے، ان ممالک میں مفاداتی تضادات کے حوالے سے معیار انتہائی بلند ہیںاور کوئی مفاداتی تضادات کے حوالے سے قانون سازی نہیں کر سکتا وگرنہ اسے کان سے پکڑ کر  نکال باہر کیا  جاتا ہے اور وہاں کوئی  یہ شور نہیں مچاتا کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘قانون کی حیثیت سب سے  اونچی ہوتی ہے۔  فردد ادارے سے  اور ادارے ریاست سے بڑے نہیں ہوتے اور  نہ ہو سکتے ہیں مگر ایسی قانون سازی میں شریک قانون سازوں کی  بد نیتی اسی سے عیاں ہے کہ ان کے  نزدیک سب سے ’’اہم اور ناگزیر‘‘ فقط انہی کی ذات ہے اور اب تو ایک اور جواز گھڑا گیا ہے کہ اگر میرے اثاثے میری آمدن سے زیادہ ہیں تو تمہیں کیا؟کتنی عجیب بات ہے کہ خواہشیں ’’امیر المومنین‘‘ کی  اور انداز مغلیہ حکمرانوں جیسے۔  امارت میں  تو حضرت عمرؓ سے  ایک عام بدو منبر پر بے خوف و بے دھڑک سوال کرنے کی جرأت اور اجازت رکھتا ہے ،فاتح کاشغر مفتوح قوم کے پادری کی شکایت  پر اپنے ہی قاضی کے فیصلے کے نتیجے میں   فوری مفتوحہ علاقہ خالی کر دیتا ہے مگر یہاں جواز’’تو تمہیں کیا‘‘؟اس پس منظر میں بلاول بھٹو زرداری کا  یہ بیان کہ بس کریں ،جمہوریت کو چلنے دیں، صرف شکنجے میں پھنسے مغل شہزادوں کو کمک  فراہم کرنا ہی نہیں بلکہ اپنے  والد کے گرد تنگ ہوتے گھیرے سے بچانے کی شعوری کوشش ہے۔ جمہوریت کے لئے فری  ہینڈ  طلب کرنے  والے بلاول بھٹو زرداری کو  سیاست کے لئے خود  فری ہینڈ کی ضرورت ہے۔

 

شیئر:

متعلقہ خبریں