ٹرمپ نے خطرہ کیوں مول لیا؟
سعودی عرب سے شائع ہونے والے عربی اخبار ”المدینہ“ کے کالم کے کالم کا ترجمہ نذر قارئین ہے:
بیت المقدس : لازوال دارالحکومت کا خواب
لمیاءباعشن ۔ المدینہ
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے تل ابیب سے امریکی سفارتخانہ القدس منتقل کرنے کی کارروائی قاتل وقت میں شروع کی ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب مشرق وسطیٰ کے سیاسی حالات دھماکہ خیز بنے ہوئے ہیں۔ ہر عرب ملک کسی نہ کسی مشکل میں گھرا ہوا ہے۔ درپیش مسئلہ ہر عرب ملک کے قدرتی وسائل کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ سارا وقت اسی کی نظر ہورہا ہے۔ ہر ملک کی دلچسپیوں کا محور اس ملک کو درپیش بحران بنا ہوا ہے۔ عوام بے حال ہیں۔ اسرائیل اس صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنا دیرینہ خواب پورا کرنے میں پوری قوت سے لگا ہوا تھا۔
کیا موجودہ وقت سے زیادہ بہتر کوئی اورو قت اسرائیل کو اپنی مراد حاصل کرنے کے حوالے سے مل سکتا تھا؟ بلاشبہ عرب اپنے بڑے اور کڑوے کسیلے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ عراق اپنے بکھرے ہوئے وجود کو سمیٹنے میں لگا ہوا ہے، شام لہولہان ہے، لیبیا کا ایک ،ایک حصہ سراپا زخم بنا ہوا ہے، یمن مسائل کی بھول بھلیوں میں پھنسا ہوا ہے۔لبنان خود کو ہمسایوںکے چکر میں پڑنے سے بچانے کی مہم چلائے ہوئے ہے۔قطر عربوںکی پیٹھ میں خنجر بنا ہوا ہے، ایران گھات میں لگا ہوا ہے، عربوں کیخلاف اسکیمیں تیار کررہا ہے، ترکی سرکس کے کھلاڑی کی طرح ہر رسّے پر اچھل کود مچائے ہوئے ہے۔ بھلا بتائیے اس سے زیادہ زریں موقع اسرائیل کو اپنے مقاصد کی تکمیل کا کب ہاتھ آسکتا تھا؟
موقع سے فائدہ اٹھانا کوئی انوکھی یا انہونی بات نہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اس جہت میں آگے بڑھنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ بظاہر عبوری نوعیت کا نہیں۔ دراصل انہوں نے انتخابی مہم کے دوران امریکی سفارتخانہ القدس منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ منصب صدارت پر فائز ہوئے تو اسرائیل نے وعدے کی تکمیل کی یاددہانی کرانے کیلئے گھنٹی پرگھنٹی بجانا شروع کردی۔ انہیں بار بار دھیان دلایا گیا کہ آپ نے کوئی وعدہ کیا تھا جسے پورا کرنا ہے۔ انتخابات کے دوران ٹرمپ کا ساتھ دینے والی یہودی لابی بھی وعدے کی تکمیل پر زو ردینے لگی۔ ٹرمپ نے حتی الامکان وعدے پر عمل درآمد کو سرد خانے کے حوالے کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ۔ انہوں نے وہ طریقہ¿ کار اپنانے کا سہارا لیا جو انکے پیشرو امریکی صدر اپناتے رہے تھے ۔ ہر صدر انتخابی مہم کے دوران اسرائیل سے وعدے کرتا رہا اور پھر مدتِ صدارت مکمل ہونے تک وعدے کی تکمیل کا معاملہ ٹالتا رہا۔
امریکی کانگریس نے 1995ءکے دوران مریکی سفارتخانہ القدس میں قائم کرنے کی منظوری دیدی تھی۔ ہر امریکی صدر اس فیصلے پر عملدرآمد کا قانونی طور پر پابند تھا۔ اسے اختیار تھا کہ یا تو تل ابیب سے امریکی سفارتخانہ القدس منتقل کرے یا ہر 6ماہ کیلئے عملدرآمد کو ملتوی کرنے کا صدارتی فرمان جاری کرے۔ ایسا نہ کرنے پر کانگریس کا فیصلہ خود بخود موثر ہوجاتا۔ ٹرمپ نے گزشتہ جون میں مذکورہ فیصلے کے نفاد کو 6ماہ کیلئے ملتوی کردیا تھا۔ دسمبر میں انہیں ایک بار پھر ایسا ہی صدارتی فرمان جاری کرنا تھا۔ اس دوران انہوں نے عرب رہنماﺅں سے رابطے کئے ۔ انہیں بتایاکہ معاملہ سنجیدہ ہے اور وہ القدس کی بابت فیصلہ لینے پر مجبور ہیں۔
القدس سفارتخانہ منتقل کرنے کے فیصلے نے امریکہ کو ثالث کے بجائے جانبدار بنادیا۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنےوالا ملک بنوا دیا۔پتہ نہیں ٹرمپ نے سابقہ امن مساعی، بین الاقوامی قوانین، معاہدوں اور خطے کے امن و استحکام کا خطرہ کیونکر مول لے لیا۔
اقوام متحدہ بیت المقدس کی قانونی اورسیاسی پوزیشن متعین کرنے کیلئے خودمختار ادارہ قائم کئے ہوئے ہے۔ تمام ممالک اقوام متحدہ کی قراردادوں کے پابند ہیں۔کسی بھی ملک نے القدس پراسرائیلی بالادستی تسلیم نہیں کی۔ تمام ممالک تل ابیب میں اپنے سفارتخانے کھولے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ڈیوڈ بنجوریون نے 1949ءمیں اعلان کیا تھا کہ القدس اسرائیل کا ابدی دارالحکومت ہے۔ اسرائیلی کینسٹ پارلیمنٹ نے اعلان کررکھا ہے کہ غیر منقسم القدس اسرائیل کادارالحکومت ہے اور رہیگا۔ یہ ہے قانون سے اسرائیل کی کھلی بغاوت۔
٭٭٭٭٭٭٭٭