سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار المدینہ میں شائع ہونے والے کالم کا ترجمہ نذر قارئین ہے۔
زندگی کی خوشیاں اور موت کا جشن
عبداللہ الجمیلی۔ المدینہ
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام نے بندگان خدا کو اللہ تعالیٰ کی مکمل تابعداری کا پیغام دیا ہے۔ اسلام لوگوں کو آخرت کی یاد بھی دلاتا ہے۔ انہیں دوزخ کے عذاب سے ڈرا کر جنت لیجانے والی صراط مستقیم کی روشنی بھی دیتا ہے۔ اسلام جہاں جنت و دوزخ کا عقیدہ دیتا ہے وہیں وہ مسلمہ اصولوں اور غیر متزلزل ضوابط سے نہ ٹکرانے والی زندگی کی خوشیاں جینے کا سبق بھی سکھاتا ہے۔
یہ وہ باتیں ہیں جو ان لوگوں نے سمجھی ہیں جنہوںنے لازوال انسانی تمدن قائم کیا جنہوں نے اغیار کے ساتھ روا داری اور پرامن بقائے باہم کی تعلیم دینے والا تمدن استوار کیا۔ اقوام عالم کے دیگر تمدنوں نے اسلامی تمدن سے فائدہ اٹھایا۔ یہ حقیقت ناقابل انکار ہے کہ مختلف علوم کے بانی علماءنے جو کچھ دیا تھا نشاة نو کی بنیاد اسی پر پڑی۔
مسلمان دنیا بھر میں گھومے پھرے، تجارت، سیاحت ، معرفت اور جغرافیائی حوالوں سے علماءنے دنیا بھر کے چکر لگائے۔ لاکھوں لوگ مسلمانوںکی راست گوئی، اعلیٰ درجے کے لین دین اور پاکیزہ اخلاق سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔
دین اسلام کی ایک مثالی تصویر پوری دنیا کے سامنے آئی تھی۔ گزشتہ برسوں کے دوران ایک فرقے نے اسلام کی اس تصویر کو عصر حاضر کے ذہنوں سے کھرچنے کی مہم چلا رکھی ہے۔ یہ فرقہ موت کی ثقافت کا پرچار کررہا ہے۔ متعدد خطیب اور مبلغ، اسلام کی میانہ روی اس کی روا داری اور رب العالمین کی رحمت کو فراموش کرکے مساجد کے منبروں سے موت کے پرچار میں لگے ہوئے ہیں۔گریہ کرتی انکی آوازیں صرف موت کی یاد دلانے پر اکتفا کررہے ہیں۔ وہ بندگان خدا کو صرف قبر کی تاریکی کے مناظر کی یاد دلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ انکا کام منکر نکیر کے سوال و جوا ب اور عذاب قبر کے سوا کچھ نہیں رہ گیا۔
مسلم دنیا میں ”اسلامی ریکارڈنگ“ کا رواج بھی کافی پھیلا ہوا ہے۔ اس کے تحت ایسے آڈیو کیسٹ اور سی ڈیز پھیلائی جارہی ہیں جن سے موت کی بو آتی ہے۔ جو صرف وعید کے مضامین پر مشتمل ہوتی ہیں۔ انکے شانہ بشانہ اسی قسم کے کتابچے اور کتابیں بھی مارکیٹ میں عام کردی گئی ہیں۔
اس سلسلے کی آخری کڑی جذباتی نوجوانوں کے لئے شہادت کی اپیلیں ہیں۔ نوجوانوں سے کہا گیا کہ وہ افغانستان جائیں وہی حقیقی دارالاسلام ہے۔ افغانستان پہنچیں وہی گرم جہاد کا مرکز ہے۔ جہاد کی ترغیب دینے کیلئے پرجوش تقریریں کی گئیں۔ ثانوی اسکولوں اور جامعات میں جہاد پر بھڑکانے والے میگزین تقسیم کئے گئے۔ نوجوانوں کو باور کرایا گیا کہ کابل تمہیں پکار رہا ہے۔ کابل میں بہنے والا خون اپنی ایک خوشبو رکھتا ہے۔ اسکی خوشبو مشک اور عنبر سے کہیں زیادہ اعلیٰ درجے کی ہوتی ہے۔ اتنا ہی نہیں کرامتوں کے بے شمار قصے نوجوانوں میں عا م کئے گئے۔ نوجوانوں کو سمجھایا گیا کہ کابل کی مٹھی بھر مٹی سوویت یونین کے ٹینک کو تباہ کرنے کیلئے کافی ثابت ہورہی ہے۔
اس قسم کی اپیلوں پر لبیک کہتے ہوئے سعودی عرب کے منتخب نوجوان اپنے کفن سمیت افغانستان پہنچ گئے۔ یہ نوجوان پاکیزہ عزائم کے مالک تھے۔ یہ نوجوان اپنے جذبے میں صادق تھے۔ انکی زندگی کا واحد ہدف شہادت تھی۔ افغانستان جانے والے سیکڑوں نوجوان جاں بحق ہوگئے۔ ان میں سے جو زندہ بچے وہ یہ تلخ حقیقت دیکھ کر الجھ گئے کہ جہاد کے جن قائدین کے پرچم تلے رہ کر انہوں نے تن من دھن کی قربانی کے عزم باندھے تھے وہ تو افغانستان سے سوویت یونین کی فوج کے نکلنے کے بعد اقتدار اور کرسی کے دیوانے ثابت ہوئے۔
اس زمانے میں صرف ایک ہی آواز کا شور تھا۔ اسکے سوا کوئی اور صدا سنائی نہیں دیتی تھی۔ پھر سیٹلائٹ چینلز اور مواصلات کا انقلاب آیا جس نے روا داری کے علمبردار اور اغیار کے ساتھ حسن سلوک کی دعوت دینے والے اسلام کو روشناس کرایا۔ رائے عامہ پر یہ حقیقت منکشف کی کہ اسلام میں 4مسلک پائے جاتے ہیں۔ اسلام عورت کو پردے کا حکم دیتا ہے لیکن اسے سیاہ برقعہ پہننے کا پابند نہیں بناتا۔ اسلام قبر کے عذاب اور آخرت کے حساب کی یاد دلاتا ہے لیکن زندگی کی خوشیاں منانے سے منع نہیں کرتا۔
ہمیں امید ہے کہ عصر حاضر میں رونما ہونے والی میانہ روی کی دعوت محض دہشتگردی سے نمٹنے کا ردعمل نہ ہو۔ ہماری تمنا ہے کہ لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ شدت پسند افکار سے نجات کیلئے روا داری کا علم بلند کیا جارہا ہے۔ مسلمہ اسلامی اصولوں کو پس پشت نہ ڈالا جائے اور اعتدال و میانہ روی کو حقیقی شناخت کے طور پر لیا جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭